تحریک پاکستان اور چودھری رحمت علی

آج 3 فروری 2014 ءچودھری رحمت علی کا 63 واں یوم وفات ہے۔ وہی رحمت علی جس نے ہمارے وطن کو ”پاکستان“ جیسا خوبصورت نام دیا۔تحریک قیام پاکستان میں چودھری رحمت علی ایک منفرد اور مثالی کردار کے حامل ہیں۔ وہ اس منصوبے کے نقاش بھی ہیں اور اسکے نام کے خالق بھی۔ اگر ہم تاریخ کے زائچے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد سے 1940 ءکی قرارداد لاہور تک ایک طویل اور تھکا دینے والا تاریخی سفر ہے اور مسافر ہیں کہ نہ عزم کی کمی ہے نہ حوصلے کی قلت اس تاریخ کے دھارے میں تقریباً پونے دو سو کے قریب ایسے مسلم اور غیر مسلم‘ملکی اور غیر ملکی افراد اور اداروں کے ساتھ کئی سیاسی تنظیموں نے ایک آزاد مسلم ریاست کی تشکیل کا کسی نہ کسی صورت اور انداز میں مطالبہ کیا ہے۔ 1915 ءمیں چودھری رحمت علی نے اسلامیہ کالج لاہور میں بزم شبلی کے زیراہتمام تقریب سے اپنے خطاب میں علی الاعلان کہا کہ ہندوستان کے شمالی علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں پر مشتمل آزاد اور خود مختار مملکت کی تشکیل ہی جملہ مسائل کا حل ہے۔ 1930 ءمیں علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد بھی اس تحریک میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اگرچہ انہوں نے اکثریتی مسلم علاقوں پر مشتمل مجوزہ وفاق کو کل ہند وفاق یا برطانوی ہند کے اندر رہ کر ہی اس کے قیام کی تجویز پیش کی تھی تاہم جملہ گول میز کانفرنسوں کے نتیجے میں جس میں 26 مسلم زعماءشامل رائے تھے فریقین نے جب کل ہند وفاق پر اتفاق کرتے ہوئے وفاق فیڈریشن کے نقوش ابھرنے لگے تو یہ چودھری رحمت علی ہی تھے جنہوں نے اسکی بھرپور مخالفت کی اور کہا ایسی صورت میں مسلمانوں کی حیثیت اقلیت سے بھی کم ہو جائے گی اور مسلمانوں کی ترجمانی کیلئے پاکستان نیشنل موومنٹ قائم کی اور اس فورم سے اپنا تاریخی مقالہ ”اب یا کبھی نہیں“ کے عنوان سے 28 جنوری 1933 ءکو شائع اور وسیع حلقوں میں ارسال کر کے تاریخ کا قرض ادا کیا۔سچ پوچھیں تو یہ مقالہ ہی دراصل قیام پاکستان کا ”علامتی اعلان آزادی“ تھا جس میں اسکے مصنف نے نہ صرف اپنے مجوزہ منصوبے کا اعلان اور مسلم ریاست کی آزادی کو مدلل منطقی استدلال سے پیش کرتے ہوئے اس کا نام ”پاکستان“ بھی تجویز کر دیا تھا۔ چودھری رحمت علی کے اس نعرہ تکبیر کی صدائے بازگشت دانشوروں‘ سیاسی اکابرین اور مسلم زعماءسے ہوتی ہوئی اس وقت کے انگریزوں کے ایوانہائے اقتدار تک ایسی پھیلی کہ بہت سے ہندو و مسلم لکھاریوں نے اس پر قلم اٹھایا۔ جن میں نامور ہندو اکابرین کی تحریروں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد کی کتاب تقسیم ہند INDIA DIVIDED مطبوعہ 1946 ءکے اس باب کا ذکر کریں گے جس میں انہوں نے پاکستان کے قیام کی جملہ اسکیموں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے ایک پنجابی علی گڑھ کے پروفیسر ڈاکٹر شوکت اﷲ انصاری سر عبداﷲ ہارون‘ سر سکندر حیات سمیت کئی زعماءکے مجوزہ منصوبوں کا ذکر کیا ہے۔ تاہم ان تمام اسکیموں کو تنقید‘ تجزیئے اور اپنے استدلال سے رد کرنے کے بعد چودھری رحمت علی کی مجوزہ اسکیم کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چودھری رحمت علی تحریک پاکستان کا آغاز کرنیوالا داعی اور اس کا مبلغ ہے کیونکہ جنوبی ایشیاءکی تقسیم کا سب سے پہلے اسی نے دعویٰ کا اعلان کیا۔ اسی نے مجوزہ مسلم ریاست کا نام ”پاکستان“ تجویز کیا۔

ای پیپر دی نیشن