گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
عالمی میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں میں تیزی آگئی۔ 24 گھنٹوں کے دوران مزید100 فلسطینی شہید ہو گئے۔ گزشتہ2 ماہ کے دوران شمالی غزہ کے جاری اسرائیلی محاصرے میں وحشیانہ زمینی اور فضائی حملوں میں شہدا کی تعداد 2 ہزار 700 تک پہنچ گئی ہے۔
اب تک اسرائیلی جارحیت میں 45 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے دوگناہے جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔فلسطینی اپنے گھروں تو کیا پناہ گزین کیمپوں ،عبادت گاہوں اور ہسپتالوں تک میں بھی محفوظ نہیں ہیں ا±دھر باقی کسر سنگین غذائی بحران نے نکال دی ہے فاقوں کی وجہ سے بہت سے لوگ موت کی طرف رینگ رہے ہیں۔بچے دودھ سے محروم ہیں جبکہ مریضوں کے لیے ادویات ناپید ہو چکی ہیں۔فلسطین میں انسانی المیہ پیدا ہی نہیں ہو چکا بلکہ بدترین صورت بھی اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیل جہاں بمباری کر کے فلسطینیوں کو مار رہا ہے وہیں عالمی سطح پر آنے والی امداد بھی فلسطینیوں تک نہیں پہنچنے دے رہا۔اس سے انسانی المیہ مزید بھی بھیانک صورت اختیار کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔عالمی برادری خصوصی طور پر اقوامِ متحدہ بے بسی کا نمونہ بنی ہوئی ہے جبکہ امریکہ و برطانیہ جیسی بڑی طاقتیں بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ان کی طرف سے ظالم اسرائیل کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔یہ ان حکومتوں اور حکمرانوں کے رویے ہیں جبکہ انہی ممالک کے لاکھوں عوام کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہوچکے ہیں۔امریکہ میں ایک بار نہیں کئی بار فلسطینیوں کے حق میں نہیں بلکہ انسانیت کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ دو روز قبل لندن میں غزہ اور لبنان جنگ میں جاری اسرائیلی قتل عام کے خلاف بڑا احتجاج کیا گیا۔ جنگ مخالف تنظیموں کا اسرائیلی مظالم کے خلاف قومی سطح کا یہ 22 واں احتجاج تھا۔ منتظمین کے مطابق اسرائیلی قتل عام کے خلاف مظاہرے میں ایک لاکھ 20 ہزار افراد شریک ہوئے۔ مظاہرین پارک لین سے مارچ کرتے ہوئے وائٹ ہال پہنچے اور جنگ بندی کیلئے نعرے لگائے۔ احتجاج میں شریک افراد نے مطالبہ کیا کہ برطانیہ‘ اسرائیل پر فلسطینیوں کا قتل عام بند کرانے کیلئے دباو¿ ڈالے۔کہنے کو تو امریکہ اور برطانیہ میں جمہوریت ہے یہاں جمہور کی آواز پر کان دھرنا ضروری ہوتا ہے مگر عملی طور پر ایسا نظر نہیں آتا۔جمہوری اصولوں کا تقاضہ ہے کہ عوامی مظاہروں میں جو مطالبات سامنے آتے ہیں ان کو سنا جائے اور ان پر عمل کیا جائے مگر یہ طاقتیں عوامی مطالبات کو پرکاہ کی اہمیت بھی نہیں دے رہیں۔اس سے زیادہ جمہوری رویے تو چین کے ہیں جسے یہ ممالک غیر جمہوری ریاست سمجھتے ہیں۔
فلسطینی تمام تر مصائب کے باوجود بھی اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر کر رہے ہیں۔بعید نہیں کہ اسی جذبے کے ساتھ وہ اسرائیل کو جواب دیتے رہے تو وہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں۔لبنان کی حزب اللہ ہمیشہ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے لبنان کو بھی نشانہ بنایا اور پہلے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اور اس کے بعد ان کے جانشین کو بھی حملوں میں شہید کر دیا۔لیکن حزب اللہ کی ہمت نہیں ٹوٹی انہوں نے اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور 2005 چھ کی یاد ایک بار پھر تازہ کر دی. اس دوران اسرائیل کو حزب اللہ نے ناک چنے چبوا دیے تھے کہ کئی سال تک اسرائیل نے اس طرح منہ نہیں کیا لیکن اب جب اس طرف اس کا رخ ہوا تو اسے منہ توڑ جواب دیا اور وہاں سے اس کو بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا جس پر باقاعدہ حزب اللہ کی طرف سے جشن منایا گیا ہے.
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
ادھر عالمی قوتوں نے ایک بار پھر شام کو آتش فشاں بنا دیا ہے۔بشار الاسد نامساعد حالات کے باوجود بھی داعش کو کارنر کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے لیکن اب اسرائیل امریکہ برطانیہ اور دیگر طاقتوں نے بچے کچی داعش کو پھر اکٹھا کر کے بشار الاسد کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔عمومی طور پر اس معاملے میں مسلمان ممالک بشار الاسد کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ترکی ان قوتوں کا ساتھ دے رہا ہے۔
افسوس تو اس بات پر بھی ہے کہ مسلم امہ اسرائیل کے خلاف اس طرح سے متحد اور مضبوط ہو کر سامنے نہیں آئی جس طرح اسے ہونا چاہیے تھا۔بیانات کی حد تک تو مسلمان ممالک ایک دوسرے سے بڑھ کر بیانات دے رہے ہیں لیکن مذمتوں سے قراردادوں سے اور بیانات سے اسرائیل پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔فلسطینی بھی شاید سمجھ چکے ہیں کہ یہ ان کی جنگ ہے اور انہوں نے تن تنہا یہ جنگ لڑنی ہے۔مسلمان ممالک اگر اس طرح سے فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دے سکتے جس طرح امریکہ برطانیہ اور دیگر ممالک اسرائیل کا دے رہے ہیں تو کم از کم انسانی ہمدردی کے تحت اپنے ملکوں کی سرحدیں تو فلسطینی بچے بوڑھوں اور خواتین کے لیے کھول دیں۔
اگر دنیا کے سفاک ترین شخص کی بات کی جائے تو وہ نیتن یاہو کی شکل میں اسرائیل کا وزیراعظم ہے۔ساری بربریت اور سفاکیت اس ایک شخص پر آ کر ختم ہو جاتی ہے جو فلسطینیوں کا قتل عام کیے چلا جا رہا ہے اور جنگ بندی کی طرف آنے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن اس پر عالمی افتاد بھی ٹوٹی ہوئی ہے 130 ممالک کی طرف سے باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ ان کے ملک نہیں آ سکتا اس کے عالمی عدالت انصاف کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔جہاں اقوام متحدہ بے بس ہے وہیں عالمی عدالت بھی اتنی تڑ نہیں رکھتی کہ اس شخص کو اپنے آرڈرز کے تحت گرفتار بھی کروا لیا جائے بہرحال حالات بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔زندگی کے کسی بھی موڑ پر نیتن یاہو کو عالمی قوانین کے کٹہرے میں آنا پڑ سکتا ہے۔
ادھر پاکستان میں صورتحال بھی نام مساعدہے۔سیاسی خلفشار تو اپنی جگہ پر پہلے بھی تھا مگر اب دہشت گردی بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بدترین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔خیبر پختونخواہ میں پارہ چنار کے علاقے فرقہ واریت کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔خیبر پختونخواہ اور مرکزی حکومت کی توجہ اس طرف ہونی چاہیے۔دونوں کے مابین سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن دہشت گردی کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مذاکرات یا لاٹھی سے سیاسی استحکام لانا ہوگا۔لاٹھی صرف اور صرف دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے سیاسی استحکام کے لیے لاٹھی اور گولی نہیں بلکہ اول و آخر ہتھیار بات چیت اور مذاکرات ہی ہے۔ایک دو روز قبل حکومتی ترجمان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو رہے۔اس میں بھی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں سب سے بڑا ہاتھ ٹی ٹی پی کا ہے اس کے ساتھ ساتھ بلوچ علیحد کی پسند بھی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔فرقہ واریت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔مذاکرات کا آپشن تو جنگوں میں بھی موجود رہتا ہے۔دہشت گرد ٹی ٹی پی کے ساتھ ہر سطح پر ہر طرح سے نمٹے جانے کی ضرورت ہے اور نمٹا بھی جا رہا ہے۔یہ سارا کچھ دہشت گردی سے نجات کے لیے کیا جا رہا ہے۔دہشت گردی کا خاتمہ بہر صورت مطلوب ہے۔اس کے لیے کسی سیکشن کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں۔