کارکردگی ؟؟ ، وزراء کی تنخواہوں میں اضافہ۔واہ واہ! 

امیر محمد خان 
وزیر اعظم کی تمام تر کوششوںکے باوجود بھی معیشت ہماری خواہش کے مطابق اپنے حداف پورنے نہیں کرپارہی ، وزیر اعظم کے ہمراہ عسکری قیادت بھی معیشت کی درستگی کیلئے بھی کوششیں کررہی ہے اس کے باوجود کہ بیرونی عوامل اور اندرونی سہولت کاروںکی مہربانی سے ہم پر دہشت گردی کی ایک نئی مسلط ہونے والی وباء  پر عسکری قیادت کی تمام تر توجہ ہے اورپاکستان کو نقصان پہنچانے کی خواہش رکھنے والوں کو جہنم رسید کررہے ہیں اس کے باوجود کے ہمارے جوان بھی اس عمل میں جام شہادت نوش کررہے ہیں، وزیراعظم اور وزراء صبح شام کہہ تو رہے ہیں کہ مہنگائی کی شرح کم ہوگئی ہے ، معیشت بہتر ہوگئی ہے ، مگر اسکے آثار نچلی سطح پر عوام میں نظر نہیںآرہے پاکستان کی معیشت کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ روایتی معنوں میں ''صحیح راستے'' پر ہے یا نہیں۔ افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان خاص طور پر خوراک اور توانائی کے شعبوں میں مہنگائی کی بلند شرح کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستانی روپیہ بھی دباؤ کا شکار ہے جس کی وجہ سے امریکی ڈالر جیسی بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں قدر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ہر م ممکنہ ذرائع سے حکومت معیشت کی درستگی کیلئے قرض حاصل کررہی ہے جو بالآخر آنے والے وقت میں ادا کرنا ہونگیں ملک پر بیرونی قرضوں کابڑا بوجھ ہے، اور اس قرض کو پورا کرنے میں اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کا ایک بڑا حصہ استعمال ہو رہا ہے، جو ملکی ترقی کے اقدامات میں سرمایہ کاری کرنے کی اس کی صلاحیت کو محدود کرتا ہے۔ٹیکس کی مد میںحکومت اصلاحات کرکے ، تاجروں کے شور و غل کے باجود تاجروں اور متعلقہ شعبوں سے ٹیکس وصول کررہی ہے ، جبکہ ہماری معیشت کابڑاحصہ ’’جاگیر دار ‘‘ بھی محب وطنی کو اپنا لیں تو مزید اور بڑا ذریعہ ملک کے زمیندار ہوسکتے ہیں، مگر تمام تر اعلانات کے باوجود جاگیر دار اپنے اثر و رسوخ کی بناء پر ملک کو اپنی آمدن سے ٹیکس ادا نہیں کرتا ، نہ جانے حکومت انکے سامنے کیوں بے بس نظر آتی ہے ، شائد یہ وجہ ہے کہ وہ ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، وہ اپنے مفادات کا تحفظ ملک کو نقصان پہنچا کرکرتے ہیں ، یہ لوگ سیاسی عدم استحکام کی پشت پر ہوتے ہیںسیاسی عدم استحکام و قیادت کی تبدیلیوں نے ملک میں طویل المدتی اقتصادی منصوبوں اور اصلاحات کو نافذ کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوتا ہے۔اس صورتحال کے باوجود اگر علاقائی طور پر جنوبی ایشیاء کا معیشت کے حوالے سے تقابلی جائزہ لیا جائے توپاکستان کی معیشت اب بھی جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے،تاہم، ملک کی پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے توانائی کی کمی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور بدعنوانی کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اہم چیلنجز باقی ہیں۔ آگے کا راستہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ پاکستان ان ساختی اور بیرونی مسائل کو کس حد تک مؤثر طریقے سے حل کرتا ہے، ساتھ ہی سیاسی ماحول جو ان اصلاحات کو قابل بناتا ہے یا اس میں رکاوٹ ڈالتا۔موجودہ صورتحال میں جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے حکومت کے تمام تر اعلانات کے باوجود کہ مہنگائی پر قابو پالیا ہے ، خاص طور کچھ وزراء جو کسی اعداد و شمار سے واقفیت نہ رکھتے ہوئے صرف اس بات کا راگ سناتے ہیں کہ مہنگائی کم ہورہی ہے ، عوام خو ش ہیںوغیرہ وغیرہ۔جس سے وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھوتے ہیں ، اس بناء پر اگر وہ کوئی بات صحیح بھی  بتائیں تو عوام توجہ نہیں دیتے کیونکہ ایک جھوٹ،ایک غلط بیانی دس سچی باتوں کو پہنچاتی ہے ، اور خاص طور پر گزشتہ ماہ کا یہ اعلان عوام میں نفرت کاسبب بناہے جب، بجلی ، پیٹرول ، اشیاء خوردونوش کی مہنگائی کی فضاء میں وزراء اپنی تنخواہوں میں 180فیصد اضافہ ملنے والی بادشاہت جیسی دیگر مراعات میں کرلیں تو عوام ان سے کسطرح محبت کرسکتے ہیں جن کے لئے دو وقت کی ر وٹی،، بچوں کی تعلیم ، تمام تر محنت کرنے کے بعد بھی محال ہو ، وہ بچوں کی بھوک کی وجہ سے اپنے ہی بچوںکو قتل کرکے خود کشی کررہے ہوں، یہ صورتحال عام نہیں مگر ہے جو افسوسناک ہے چونکہ دولت کی تقسیم نہائت غیر منصفانہ ہے ، جو طبقاتی کشمش کو جنم دیتی ہے اور تاریخ گواہ ہے طبقاتی کشمش ہی ملک میں بد امنی، جرائم اور بالاآخر ملک کو انقلاب کی طرف لے جاتی ہے۔ وزراء کی حالیہ معیشت کی کمزووری میں ، اگر کوئی ان سے تنخواہ میں اضافہ کا سبب پوچھے تو شائد ہی کسی وزیر کو شرمندگی ہو اگر کوئی ان سے پوچھے کہ ’’آپ کیا کارہائے نمایاں ‘‘انجام دے رہے ہیں جو آپکو عوام کے پیسوںسے یہ مراعات ، اور تنخواہیں مل رہی ہیںدوسری جانب عوا م صرف معیشت کی درستگی کے بیانوںپر زندہ ہیں پاکستان میں وزراء کی تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے کے مختلف عوامل پر منحصر معیشت پر ملے جلے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جو معاشی چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے ، جیسے کہ بلند افراط زر یا بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں میں، سرکاری اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ منفی عوامی جذبات کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ اسے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔جبکہ حکومت پہلے ہی مالیاتی خسارے سے نبردآزما ہے تو وزارتوں کی زیادہ تنخواہیں عوامی مالیات پر اضافی دباؤ ڈال سکتی ہیں۔ایک ایسی صورت حال میں جہاں عام آبادی کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے، وزراء کے لیے زیادہ تنخواہیں عدم مساوات کو بڑھا سکتی ہیں اور ممکنہ طور پر سرکاری اداروں پر عوامی اعتماد کو ختم کر سکتی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اس وقت جبکہ ہماری معیشت آئی ایم ایف کی طابع ہوچکی ہے ، ہم بجلی ، پیٹرول ، حکومتی اخراجات آئی ایم ایف سے پوچھے بغیر اور انکی اجازت کے بغیر شائد بڑھا تو سکتی ہے مگر کم ایک پیسہ بھی نہیں کرسکتی ، آئی ایم ایف زرعات پر ٹیکس کی بات کرتی ہے ہم وہ نہیں کرسکتے حکومتی اخراجات میں کمی کی بات کرتی ہے مگر ہم نہیں کرسکتے صرف وعدہ ہی کرتے ہیں اگلا قرض لینے کیلئے ، اب سوال بنتاہے کہ آئی ایم ایف کو وزراء کی تنخواہوں میں اضافہ پر اعتراض کیوںنہ ہوا ؟؟جبکہ پاکستان کے وزیر خزانہ کہہ چکے تھے چند روز قبل ہی کہ بجٹ میں وزراء کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا،پارلمنٹ نے انکے بیان کی لاج رکھ لی اور بجٹ کا انتظار نہیںکیا اور اسپیکر کے ایک مختصر فیصلے کے ذریعے تنخواہوںن میں اضافہ کا فیصلہ کرلیا ، اب یہ سوال ہوتاہے کہ آئی ایم ایف کویہ ا ضافہ کیوں نظر نہیںآیا توڈھٹائی کا جواب یہ بنتا ہے کہ IMF بنیادی طور پر اقتصادی استحکام اور ساختی اصلاحات پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اگر تنخواہوں
 میں اضافے کو ایک سیاسی فیصلے کے طور پر دیکھا جائے جو کہ مالیاتی استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے، تو آئی ایم ایف براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا۔ ان کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ آیا حکومت کی مالیاتی پالیسیاں متفقہ اہداف سے ہم آہنگ ہیں۔آئی ایم ایف وسیع تر اصلاحاتی ایجنڈے اور مالیاتی اہداف پر زیادہ توجہ دیتاہے جن پر پاکستان کے قرض کے معاہدے میں اتفاق کیا گیا ہے۔ اگر تنخواہ میں اضافہ خسارے میں کمی یا پبلک سیکٹر کے اخراجات سے متعلق IMF کی کسی اہم شرائط کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔اسکا مطلب ہے کہ آئی ایف کے حداف پایہ تکمیل کو پہنچیں عوام اور مہنگائی جائیں ب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔

ای پیپر دی نیشن