مجید نظامی نے ستر کے عشرے میں کچھ عرصہ کے لئے نوائے وقت سے علیحدگی اختیارکرکے ایک نیاروزنامہ ’’ندائے ملت ‘‘ نکالا۔ مگر جب نوائے وقت ایک عدالتی فیصلہ کے ابتلاء میں مبتلا ہوا اور اندیشہ ہواکہ نوائے وقت کی اشاعت شاید تعطل کا شکار ہوجائے تو انہوں نے آزمائش کی اس گھڑی میں اپنے بھتیجوں شعیب نظامی اور عارف نظامی کا دل وجان سے ساتھ دیا۔ مصطفی صادق اور اس خاکسار کی زیرادارت شائع ہونے والے روزنامہ ’’ وفاق ‘‘ نے اس روز نوائے وقت کی اشاعت کو ممکن بنانے کے لئے جناب مجید نظامی کی ہدایت پر اپنی کاپی ادارہ نوائے وقت کو مہیا کی اور نوائے وقت وفاق کی کاپی پر اپنی لوح کے ساتھ شائع ہوا۔ آزمائش وابتلاء کی اس گھڑی میں جناب مجید نظامی نوائے وقت کی مدد کوآئے ان کے اس فیاضانہ برتائو نے چند ہی مہینوں میں ندائے ملت اور نوائے وقت کے انضمام کی راہ ہموار کردی اور25 مارچ1971ء سے نوائے وقت دوبارہ جناب مجید نظامی کی زیر ادارت اورندائے ملت پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہونے لگا مگر نیا نوائے وقت 20x30سائز کے بجائے 23x33سائز پر اورآٹومیٹک اور ہینڈ فیڈ مشینوں کی بجائے روٹری مشین پرچھپا۔نوائے وقت کے کراچی ایڈیشن کا اجراء عمل میں آیا ، رنگین ایڈیشن کراچی کے پرنٹنگ پریس سے شائع ہونے لگے۔ لاہور، ملتان اور راولپنڈی ایڈیشنوں میں نئی رْوح پھونکی گئی۔ انگریزی روزنامہ نکالنے کے لئے جناب حمید نظامی کے خواب کو حقیقت کی شکل دی گئی اور ’’نیشن ‘‘کا اجراء ہوا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا کارگل کا معرکہ ،نوائے وقت پاکستان کے اصولی اور بنیادی موقف کا پرچم ہاتھ میں لئے ڈٹا رہا۔ جناب مجید نظامی کے باون سالہ دور ادارت کا سب سے اہم اور تاریخ ساز کارنامہ مختصر الفاظ میں یہی ہے کہ انہوں نے نوائے وقت کے مدیر کی حیثیت سے جن نظریات اور روایات کا علم تھاما اور جو اقدار جناب حمید نظامی نے بطور مثال ان کے لئے چھوڑی تھیں ،تندی بادِ مخالف کے بادجود انہوں نے ان نظریات،روایات اوراقدارکی پاسبانی کا خوب حق اداکیا۔ انہوں نے پاکستان میں اسلام کی سر بلندی اور عظمت کے لئے کام کرنے والوں کونوائے وقت کی صْورت میں اپنی آواز بلند کرنے کے لئے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کیا۔ وہ خود قافلہ صحافت کے ایک جرنیل کی حیثیت سے ہم خیال قوتوں کی بکھری اور منتشر صفوں کی شیرازہ بندی کرتے رہے۔ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت ہو یا نوازشریف اوربے نظیر بھٹو کے ’’جمہوری اور پارلیمانی ادوار ‘‘مجید نظامی نے آزادی صحافت کے بنیادی اصولوں پر کسی حکمران سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
جناب مجید نظامی کی اخباری اور صحافتی زندگی کا دائرہ توکم وبیش ستر برس پر پھیلاہواہے مگر نوائے وقت کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے یہ ان کی ادارت کے یہ ماہ وسال مصائب ، مشکلات اورآزمائشوں سے عبارت ہیں۔ انہوں نے ایوب خاں سے لے کر پرویز مشرف تک ہر حکمران کا ایک شان بے نیازی سے سامناکیا۔ فوجی آمرتیوں سے سول فسطائیت تک کے ہر زمانے میں لوگ حکمرانوں کی پیٹھ پیچھے جو باتیں کہنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ مجید نظامی کو اللہ تعالیٰ نے یہ جرأت وہمت عطا کئے رکھی کہ وہ سب کچھ حکمرانوں کے سامنے روبرو اور دوبدو کہتے چلے گئے۔ ایوب خاں بہ مقابلہ محترمہ فاطمہ جناح صدارتی انتخاب وہ پہلا سیاسی معرکہ تھا جس میں مجیدنظامی کی زیر ادارت نوائے وقت نے ایوب خاں کے تمام تر دبائو کے بادجود کھلم کھلا مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی اوراس معاملے میں کسی تحریص یا خوف کو خاطر میں نہ لائے۔ ایوب خاں کے خلاف جب تحریک چلی تو نوائے وقت اس تحریک کا ہراول دستہ تھا لیکن نوائے وقت بھا شانی اور مجیب کی لگائی ہوئی آگ کو بھی ہوا نہیں دینا چاہتا تھا۔ جلائو گھیرائو کے نعروں میں پْل صراط پر چلنا پڑا۔ قوم کو سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے پہلے اوربعد میںذوالفقار علی بھٹو کے سو شلزم کے جادو اثر نعروں کے سحر میں مبتلا کردیا گیا تھا۔ مجید نظامی سوشلزم کے غیر اسلامی اور غیر نظریاتی نعروں کے خلاف بھی بڑی بہادری اورجانبازی سے سینہ سپر رہے۔ وہ نوائے وقت کے صفحات اور کالموں کے ذریعے عوام کو مسلسل اور متواتر بیدار کرتے رہے اور برابر یہ یاد دلاتے رہے کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ مسئلہ ختم نبوت پربھی انہوں نے بے لچک اور واضح حکمت عملی اختیار کی اور ان تمام دینی ٰتحریکوں میں پیش پیش رہے جن کا نصب العین قادیانیوں کو مسلم دھارے سے باہر رکھنا تھا کیونکہ ان کا اس بات پر پختہ ایمان تھاکہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ خود انہوں نے واضح الفاظ میں قادیانیوں کو انگریز کے خودکاشتہ پودے کے برگ و بارقرار دیا اوراس مسئلہ پر کسی منافقت اورمصالحت کے لئے کبھی آمادہ نہیں ہوئے۔22 اگست 1980ء کو وفاق سے میر ابائیس سال کا تعلق ختم ہوا اور میں نے روزنامہ تجارت جو18فروری 1974ء سے شائع ہو رہا تھا اپنی الگ حیثیت میں نئے دفتر سے شائع کرنا شروع کیا۔ انہی دنوں لاہور ایوان صنعت وتجارت نے عالمی ایوان ہائے صنعت وتجارت کے صدر محمد علی رنگو ن والا کے اعزاز میں اواری ہوٹل میںعشائیہ کا اہتمام کیا ، جناب مجید نظامی بھی اس عشائیہ میں شریک تھے۔ وہ کھانا شروع ہونے سے قبل ہی مجھے یہ کہہ کروہاں سے نیچے لابی میں لے آئے کہ تمہیں بھی میری طرح کھانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی اورازرقاہ کرم مجھے نوائے وقت کراچی ایڈیشن میں بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر کام کرنے کی دعوت دی مگر میں ’’تجارت ‘‘زیادہ بہتر انداز میں نکالنے کا عزم کر چکا تھا اس وجہ سے ان کی پیشکش سے استفادہ نہ کرسکا ، اپنے ایک پرانے کارکن اور نیاز مند کی ہمت افزائی کے اس انداز اور اعزاز نے مجھے ہمیشہ ان کا زیر بار رکھا۔
(ختم شُد)