راجہ شاھد رشید
raja.shahid1973@gmail.com
مشرف آمریت میں جمہوریت کے بڑے بڑے پیر پنڈت اور بازار سیاست کے کئی منتری بامشرف ہو گئے تھے ، تب پرویز اشرف نے وقت کے پیٹریاٹوں کو یہ سمجھایا تھا اور ثابت کر کے دکھایا تھا کہ وہ ہمت کے ہمالیہ ہیں کسی سوچ نظریے اور عزم و استقامت والے ہیں۔ پرویز مشرف بلا بلا کر اعجاز الحق اور ظفر الحق سمیت ملکی سطح کی چند بڑی سیاسی شخصیات سے بلکہ حقیقی اہل حق سے محبتیں نبھا رہے تھے، ملاقاتیں فرما رہے تھے مگر پرویز اشرف نے ملاقات کی نہ گوجرخان سے بڑا جلوس نکالا۔ ان حالات میں ناچیز نے موصوف کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پرویز مشرف سے پرویز اشرف تک کے عنوان سے کالم بھی شائع کرائے۔ کون جیتا اور کون ہارا یہ اور بات ہے لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا ادراک و اندازہ ہے کہ مشرف دور میں راجہ پرویز اشرف نے کیسی کیسی مشکلات میں اور کن پرخطر حالات میں بڑی ہی بیباکی اور بہادری سے طارق محبوب کیانی کے مدِ مقابل ضلع ناظم کا الیکشن کیسے لڑا تھا۔ جب ایک کیانی اپنے دوسرے کیانی کے لیے باوردی انتخابی میدان میں اترا ہوا تھا اور وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا بلکہ اس وقت کے کور کمانڈر راولپنڈی تھے اور پھر نتیجتا اس الیکشن کا نتیجہ بھی وہی ہوا جو یہاں ہوتا ہوتا ہے۔ الیکشن 2018 میں پنجاب میں پیپلز امیدواروں کو 1300 ، 3000 اور اگر کسی نے زیادہ تیر مار لیا تو 13000 ووٹ ملے۔ جب پنڈی پٹھوار میں پِپلیوں کو امیدوار ہی نہیں مل رہے تھے تو ایسے حالات میں پی پی ٹکٹ کے ساتھ بھاری اکثریت سے جیتنا پیپلز پارٹی کا نہیں پرویز اشرف کا کمال تھا لیکن پارٹی کو اتنا بھی خیال نہیں آیا اور نہ توفیق ہوئی کہ ان کے انتہائی ذہین بیٹوں، بیرسٹر شاہ رخ یا راجہ خرم پرویز کو کوئی منسٹر یا سنیٹر ہی بنا دیا جاتا۔ راجہ پرویز اشرف فخرِ ایشیا ذوالفقار علی بھٹو کے سپاہی ہیں ، شہیدِ وفا بے نظیر بی بی کے بھائی ہیں لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے کہ موصوف لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن اور ضرورتمندوں، بیواں ، یتیموں اور بے سہاروں کا سہارا اور سچ صراط کے راہی بھی ہیں۔ مجھے ان کی یہ غریب پروری اور عوام دوستی پسند ہے اور ان کی یہ ادا بھی اچھی لگی کہ انہوں نے مجھ ناچیز کو ہمیشہ اپنا کزن کہا اور چھوٹا بھائی سمجھا۔ بلاشبہ پرویز اشرف پٹھوار کی مٹی کی خوشبو ہیں۔ یہاں ان جیسا مقبول عوامی لیڈر کوئی نہیں ، بے کس و مجبور غریب عوام انہیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں دیتے دیکھے گئے۔ جب انہیں کوئی پٹھوار کی پگ اور راجپوتوں کا شملہ کہتا ہے تو پیکرِ عِجز و انکسار پرویز اشرف فرماتے ہیں۔
اس دیس دا حسن چوھدری ہے
عشق راجہ وی اِسی جاگیر دا اے
کمی کاماں میں راجیاں وچ جیویں
ٹوٹا پھٹی پرانی ہیک لیر دا اے
میرے حالیہ کالموں سے پرویز اشرف کو جب معلوم ہوا کہ بھٹو سے بے نظیر تک کے نام سے میری کتاب اشاعت کے مراحل میں ہے تو انہوں نے بسلسلہ کتاب مشاورت اور ملاقات کا کہا اور پھر جب ہم مل بیٹھے تو ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ اس قدر بے ضرر اور بے غرض انسان ہیں ادب و صحافت میں کہ آپ کا بڑا بھائی وزیراعظم بھی رہا مگر آپ کبھی ملنے نہیں آئے اور نہ ہی آپ نے کبھی کسی کام کے لیے مجھ سے کوئی رابطہ کیا ، آپ ناراض ہیں یا کیا وجہ ہے۔؟ میں نے کہا معراج فیض آبادی کے الفاظ میں۔!!
دوستوں کی بے غرض ہمدردیاں تھک جائیں گی
جسم پر اتنی خراشیں ہیں کہ سب دیکھے گا کون
سیاست کے ساتویں آسماں پہ بیٹھے پرویز اشرف کو کیا معلوم کہ میں نے غربت و بے روزگاری کے کرب و بلا سے گزر ا۔ ماضی میں مجھے سرکار دربار سے عہدوں ، وزارتوں کی آفرز بھی آئیں مگر میں پھسلا نہیں، میں آج بھی حق گوئی کے پل صراط پہ کھڑا ہوں۔ ہر جماعت نے مجھے عزت و عظمت دینا چاہی سوائے اپنے شہید بھٹو کی بے نظیر پارٹی کے جنہوں نے کبھی ملنا بھی گوارا نہ کیا کوئی چارہ نہ کیا۔ میں ہمیشہ سے جن کے ترانے لکھتا رہا ، بھٹو کی پھانسی ، 27 دسمبر ، سانحہِ لیاقت باغ ، وہ ستمگر زمانے لکھتا رہا۔ میں نے بصورت شعر کہا تھا۔
کون ہے حق، باطل کون ہے
بے نظیر کا قاتل کون ہے ؟
پرویز اشرف نے کہا کہ آپ جیسے مفکر اور مدبر کو میں بطور اینکر پرسن کسی بہتر سے چینل میں پروگرام، کام مقام دلواتا ہوں اور پارٹی قیادت سے آپ کو ملواتا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ سے بڑھ کر قیادت کون ہے اور صدر زرداری ہم جیسے بے زروں ، بے زاروں اور بے ضرروں سے ملتے کہاں ہیں۔ اتنے میں ان کے حلقے سے کافی لوگ آگئے اپنے مسائل لے کر، پرویز اشرف نے انہیں محبت و عزت دی اور ان کے کاموں کے لیے مختلف لوگوں کو فون بھی کیے۔ ان میں کچھ ن لیگی لوگ بھی تھے اس لیے میں نے کہا کہ ماشااللہ آپ میں تو اپنے پرائے کی کوئی تفریق و امتیاز بالکل بھی نہیں ہے، سب کی سنتے ہیں۔ وہ کہنے لگے۔
آدم کی کسی روپ میں تحقیر نہ کر
پھرتا ہے خدا بھیس زمانے میں بدل کر
پرویز اشرف پر بے بنیاد مقدمات بنائے گئے تو گوجرخان کی ماں بہنوں اور بچیوں کے بھی یہ جذبات تھے کہ پرویز اشرف مر سکتا ہے مگر کرپشن نہیں کر سکتا۔ ان پر 437 افراد کو غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کا الزام تھا اور پھر جب وہ نیب مقدمات سے باعزت بری قرار پائے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم اپنے مقدمات عدالتوں میں لڑتے ہیں مگر عدالتوں سے نہیں لڑتے۔ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں ، شکر ہے اللہ کے کرم سے ہمیں انصاف ملا ہے۔