پاکستان اور جنوبی کوریا '' ہمیں یاد ہے ذرا ذرا''


پروفیسر بشردوست بام خیل

 داستان لکھتے ہوئے درد کی ٹھیسیں اٹھ رہی ہیں اور بتاتے ہوئے لفظ ہونٹوں سے ادا نہیں ہو رہے ہیں کیونکہ اج مردہ اجدھا جتنا پاکستان سٹیل ملز مردہ پڑا ہے ہر طرف سے گدھ اسے نوچ رہے ہیں اور وہ پاکستان کے لئے سوہان روح بنا ہے لیکن کچھ دہائیاں پہلے اسی سٹیل ملز کے طرز پر پوہانگ سٹی جنوبی کوریا کو اسی طرز پر ایک سٹیل ملز بنانے میں پاکستان نے مدد دی اور ان کو وہ تمام بلیو پرنٹس اور تجربہ کار عملہ دیا اور اج ہمارا ملز مردہ پڑا ہے جبکہ ان کا سٹیل ملز دنیاکا دوسرا بڑا مل بن گیا ہے جس کی جی ڈی پی سالانہ پاکستان کے برابر ہے  جنوبی کوریا کو ڈاکٹر محبوب نے اقتصادی ترقی کے لئے اپنی پانچ سالہ منصوبہ ان کے ساتھ شئیر کیا ان کو پاکستان نے قرضہ بھی دیا اور اج پاسو کوریا کے عجائب گھر میں وہ چیک اور ڈاکٹر محبوب کی تصویر اویزاں ہے کیونکہ انھیں احساس ہے کہ یہی لوگ و ملک تھا جس نے ہمیں خواب سے جگایا اور ہمیں ترقی کی راہ دکھاء￿  .جنوبی کوریا ایشیا کا وہ ملک ہے جہاں ترقی خوشحالی ہر طرف دکھائی دے رہی ہے اور وہاں کے لوگ محنت کوشش اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں وقت کی پابندی صفائی کا خیال رکھتے ہیں اور اپنے ملک سے بہت محبت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اج یہ ملک جنگ جھگڑوں کی بجائے ٹیکنالوجی تعلیم اور ترقی میں سب سے اگے اگے ہیں اور وہ خود کو وقت کی پکار پر اگے لا رہے ہیں.جس ملک کو ہم نے سٹیل ملز کا منصوبہ دیا پھر اسے ترقی کے لئے امداد دی لیکن اج وہی ملک اپنی قیادت کی وجہ سیبیرونی مداخلت کی وجہ سے فوجی حکومت میں دخل اندازی کی وجہ سے اور جمہوریت کو گھر سے نکالنے کی وجہ سے رو بہ زوال ہے اور یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ یہاں کی بائیس منزلہ حبب بینک کی عمارت دیکھ کر چین والے حیران رہ گئے تھے کہ یہ اتنی بلند عمارت اپ نے کھڑی کیسے کی اور جب یہی چین کا وفد لاہور میں موٹر کاروں کی فیکٹری میں گیا تو وہاں لکھا کہ اتنا بڑا کارخانہ ہم نے نہیں دیکھا حالانکہ وہ ایک پرائیویٹ کارخانہ تھا .جنوبی کوریا رقبے میں ہمارے پنجاب سے آدھا ہے آبادی پنجاب کی آدھی سے بھی کم ہے۔ افرادی قوت زیرو ہے۔ کوریا میں تیل گیس لوہا سمیت کسی قسم کی معدنیات پیدا نہیں ہوتیں حتی کہ اپنی ضرورت کی سبزی اور پھل بھی باہر سے منگوانا پڑتا ہے اور انتظام ایسا اعلی ہے کہ تیل گیس بجلی پھل سبزی آج تک کبھی ختم ہوئے ہیں نہ کبھی کم ہوئے ہیں نہ کبھی اچانک مہنگے ہوئے ہیں۔ ہر چیز ہر وقت عام دستیاب اور امیر غریب کی پہنچ میں ہوتی ہے۔ کسی قسم کی معدنیات نہ ہونے اور افرادی قوت بھی کم ہونے کے باوجود کوریا دنیا کے دس امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ کوریا کی بیس بڑی پرائیویٹ کمپنیاں اتنی امیر ہیں کہ ہر ایک کا سالانہ بجٹ پاکستان کے مجموعی بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔سام سنگ، ہنڈائی، کیا، ڈائیوو،پوسکو کو تو چھوڑیں 12 ویں بڑی کمپنی لوتے کا بجٹ 120 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔  کوریا میں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور کی روزانہ اجرت پاکستانی 15000 روپے کے برابر بنتی ہے۔ یہاں مزدور ایک دن کی کمائی سے 80 لیٹر پٹرول، یا 55 لیٹر دودھ یا 25 کلو چکن یا 10 کلو مٹن یا 20 کلو سیب خرید سکتاہے۔ گھر میں دن رات اے سی  چلائیں تو بجلی کا بل 7000 روپے سے زیادہ نہیں آتا۔ 2 دن کی کمائی سے ایک فیملی پورے ماہ کی خوراک خریدسکتی ہے۔ ایک ماہ کی کمائی سے چمچ پلیٹ سے لیکر فریج ٹی وی اسے سی تک گھر کی ہر چیز خرید سکتا ہے۔ مزدور پندرہ دن کی کمائی سے کار خرید سکتا ہے۔ بات جنوبی کوریا کی ہو رہی ہے تو جہاں سامسنگ ،ایل جی ،کیا اور ہونڈاء￿  جیسے بڑے بڑے کمپنیئوں کا گھر ہے تو وہاں جدید بیٹریاں بنانے کے بھی کارخانے موجود ہیں جو جنوبی کوریا کو ایک نئی  دنیا کی طرف لے کر جارہے ہیں اور یہ صرف اس وجہ سے ممکن ہوا کہ وہاں کی تعلیمی انقلاب نے وہاں کے نصاب نے اور وہاں کے اساتذہ نے اس انقلابی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ انھوں نے ہر سال نصاب تبدیل کیا اساتذہ کو جدید تربیت دی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر توجہ دی اور عام تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ انھیں مختلف کارخانوں میں ٹریننگ دی اور اپنے جونوں کو میدان عمل کا گرویدہ بنایا .ایک ایسا ملک جہاں لوگ صبح سویرے اٹھتے ہیں شام تک کام کرتے ہیں اور اپنے گردوپیش کو صاف رکھتے ہیں اور دل میں یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا ملک ترقی کرے اور اپنے بچوں کو محنت محبت اور وطن دوستی کا سبق سکھاتے ہیں تو یہ ملک کبھی ترقی سماجی و اقتصادی ترقی میں کسی سے پیچھے نہیں رہ سکتا .اب ائیے دیکھیں کہ یہ سب کچھ لکھنے اپ کو جنوبی کوریا لے جانے اور سیئول کی سیر کرنے کی کی کیا ضرورت ہے تو دراصل یہ ان طلبہ کے لئے کار امد ہو گا جو مزید تعلیم کے لئے چین یوکرین تاجکستان وغیرہ جانا چاہتے ہیں . میری ان سے درخواست ہے کہ جنوبی کوریا میں لاکھوں تعلیمی سکالر شپس موجود ہیں اور اگر اپ میں صلاحیت ہے تو اپ مکمل سکالر شپ پر مفت تعلیم و تربیت حاصل کر کے امریکہ برطانیہ جیسی اعلی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور تعلیم کے بعد ایک کامیاب زندگی بھی ان کے درمیان گزار سکتے ہیں اور انے والے دنوں میں ہم دیکھیں گے کہ ایشیا میں جو ملک سے سے اگے ہو گا وہ یقینا جنوبی کوریا ہو گی اور ہمیں ان سے ہر شعبہ میں رہنمائی اور سبق حاصل کرنی چاہیے .

ای پیپر دی نیشن