گندم کی فصل مارکیٹ ہوگئی،کاشتکار سراپا احتجاج

جنوبی پنجاب میں یوں تو سیاسی سرگرمیاں ماند پڑی ہیں اور عام انتخابات میں منتخب ہونے والے زیادہ تر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے اسلام آباد اور لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ حکومتی نمائندے ہوں یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے رکن اسمبلی خود شہر اقتدار پہنچ کر مسائل سے نبردآزما عوام کوتنہاچھوڑگئے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کا یہ طرز عمل کوئی نیا نہیں، سیاسی جماعتوں کے رہنما اور امیدواران الیکشن سیزن میں عوام کے درمیان پائے جاتے ہیں اور  کامیابی کیلئے عوامی مسائل سالوں مہینوں نہیں بلکہ دنوں میں حل کرنے کے بلند وبانگ دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں اور مطلوبہ اہداف حاصل ہونے کے بعد  اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور عہدوں کے حصول کیلئے ایوانوں میں ہی متحرک دکھائی دیتے ہیں جبکہ مہنگائی، بیروزگاری ،انصاف کا نظام، امن وامان کی ناقص صورتحال جوں کے توں موجود ہیں۔ اسوقت گندم کی فصل مارکیٹ میں آگئی ہے اور کاشتکاروں سراپا احتجاج ہیں کہ حکومت سپورٹ پرائس پر گندم خرید نہیں کررہی جس سے انکو انکی فصل کا جائز معاوضہ نہیں مل رہا۔
پنجاب حکومت کی ناقص پالیسی کے باعث گندم خریداری کا عمل تعطل کا شکار  ہونے سے مارکیٹ میں نرخوں کا بحران سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے  لاہور میں کاشتکاروں کے احتجاج کے باوجود نہ تو کاشتکاروں کو باردانہ کا اجراء کیا گیا ہے اور نہ ہی گندم خریداری شروع کی گئی ہے  الٹا  کاشتکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں گرفتار کر کے تھانو ں میں بند کیا گیا مارکیٹ میں گندم کے نرخوں کے بحران کی وجہ سے کپاس کی کاشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے گندم فروخت نہ ہونے کی وجہ سے کاشتکار کے پاس کپاس کی بوائی کے لئے پیسے نہیں ہیں جس کی وجہ سے کپاس کی کاشت کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا جبکہ حکومت کو کثیر زرمبادلہ خرچ کر کے روئی کی درآمدات پر انحصار کرنا پڑے گا۔ا یہی حال رہا اورکاشتکاروں سے مناسب نرخوں پر گندم نہ خریدی گئی تو آئندہ سال کپاس کی طرح گندم کی کاشت و پیداوار کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا۔ کاشتکار حکومت کی ان پالیسیوں سے بد دل ہوتا جا رہا ہے حکمرانوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے  کاشتکاروں کے مطالبات ماننے کی بجائے انہیں تشدد کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ جن سالوں میں حکومت کا گندم خریداری ہدف پورا نہیں ہوتا تھا ان دنوں میں زبردستی گندم اٹھائی جاتی تھی اب کاشتکار بیچارہ گندم احتجاجاً جلانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس دوران نگران حکومت کی جانب سے غیر ضروری طور پر گندم درآمد کرنے کی انکوائری کرانے کا اعلان کیا گیا ہے جو کہ خوش آئند فیصلہ ہے انکوائری کے بعد ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے کاشتکاروں کے پاس 17 اپریل تک کاشتکاروں سے باردانہ کے اجراء کے لیے درخواستیں مانگی گئی تھیں۔ جس ایپ کے ذریعے درخواستیں مانگی گئی تھیں اس پر چار لاکھ سے زائد درخواستیں آئی ہیں جس میں سے ایک لاکھ درخواستوں پر باردانہ کے اجراء￿  کی منظوری دی گئی ہے لیکن باردانہ کا اجراء  نہیں کیا گیا جبکہ زیادہ درخواستوں کی وجہ سے ایپ ہی بیٹھ گئی ہے۔
 سرکاری  اعلان کے مطابق 22 اپریل سے  خریداری شروع کی جانی تھی ذرائع کے مطابق کاشتکاروں کے اور اسمبلی میں ممبران اسمبلی کے احتجاج پر گندم خریداری پالیسی میں تبدیلی لانے کے منصوبے پر کام ہو رہا تھا لیکن پالیسی میں تبدیلی کے معاملے پر بھی کام رک گیا ہے حکومت نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی ہے کیونکہ محکمہ خوراک کی جانب سے خریداری شروع نہ کئے جانے کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں کاشتکاروں کو فصل کے مناسب نرخ نہیں مل رہے ۔ پہلے یکم مئی تک خریداری کا عمل شروع ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کاشتکاروں اور ممبران اسمبلی کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔باردانہ کے حصول کا طریقہ کار آسان اور گندم خریداری کا ہدف بڑھایا جائے گرفتار کسانوں کو رہا کیا جائے۔اس ضمن میں جماعت اسلامی ملتان کے زیر اہتمام کسانوں کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جسمیں امیر جماعت اسلامی ملتان ڈاکٹر صفدر ہاشمی نے کسانوں کے حق میں مظاہرہ کے شرکاء  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت فسطائیت اور جبر کی سیاست مت کرے۔ جماعت اسلامی کسانوں کی زبان بنی ہے۔ پنجاب حکومت ظلم اور ناانصافی کا دوسرا نام ہے کسان پریشان ہیں گندم کی خریداری میں کسانوں کے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے ۔ان ذمہ دران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جنہوں نے عین گندم کی کٹائی کے وقت باہر سے گندم منگوائی۔ جس کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے۔کسانوں پر مظالم بند کیے جائیں کبھی کھاد مہنگی،کبھی بجلی مہنگی اور کبھی بار دانہ کے لیے کسان لائن میں ان مظالم کے باجود کسان ملک میں کاشت کرتا ہے لیکن سرکار ہمیشہ ظلم اور زیادتی کرتی ہے۔
 مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسوقت کسان پریشان ہیں حکومت نے گندم کی قیمت طے کی لیکن خریدنے کے لیے بنائے گئے دفتر بند اور عملہ غائب ہے۔ جس کا نقصان کسان اور فائدہ سرمایہ دار کو ہو رہا ہے۔ جو سستے داموں خرید کر گندم مہنگے داموں سیل کرے گا۔ اسوقت پاسکو صرف بااثر سیاست دانوں، بڑے زمینداروں اور ذخیرہ اندوز مافیا کو باردانہ جاری کرہا ہے جبکہ غریب اور چھوٹے کاشتکاروں کی کہیں شنوائی نہیں ہورہی۔

ای پیپر دی نیشن