دل ناداں اگر مچل جائے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں کیونکہ جب اسے سمجھانے بجھانے کے لیے کسی بھی ڈاکٹر، حکیم سے رابطہ کرتے ہیں تو فوراً زبان کے نیچے گولی رکھ کر پی۔ آ ئی۔سی کا راستہ دکھا دیتا ہے۔ پنجاب بھر میں پی۔ آ ئی۔سی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے لہذا چھوٹے شہروں اور کم ترقی یافتہ دیہی علاقوں میں بسنے والے اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے،، نجات دہندہ،، پی۔ آ ئی۔ سی کو ہی سمجھتے ہیں، اپنی مرضی سے لاہور کا رخ کریں تو معاملہ کچھ اور ہوتا ہے لیکن اگر کسی ڈاکٹر کا مشورہ لاہور لے جانے کا ہو تو اس،، دل والے،، کے پورے خاندان میں واویلا مچ جاتا ہے کہ ،،ہائے ڈاکٹر نے اسے لاہور جانے کا کہا ہے تو ضرور کوئی گڑبڑ ہے،، تاہم امید انسان کے لیے ایسا تحفہ ہے جو نہ ہوتی تو زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی ،امید ایک جذبہ ہے جو بڑی سے بڑی ناکامی کو بھی کامیابی میں بدل سکتا ہے، اسی لیے امید پر دنیا قائم ہے اور مایوسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے ایسے میں جب کوئی بھی شخص ایک مریض کے ساتھ پی۔ آ ئی۔سی پہنچتا ہے تو اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اب بے قابو دل کی کیا مجال کہ وہ ڈاکٹرز کی گرفت میں نہ آ ئے لیکن ایمرجنسی ہو کہ آ ؤٹ ڈور ،انسانوں کا رش اور بیترتیبی دیکھ کرھر کوئی گھبرا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات نا امیدی اسے گھیر لیتی ہے کہ بھلا اس جم غفیر میں اس کی بات کون سنے گا ؟حالانکہ درجنوں ڈاکٹرز، سیکنڑوں نر سیں اور پیرا میڈیکل سٹاف اپنے اپنے کام میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ہر آ نے والے کی خواہش یہی ہوتی ہے فوری اور خصوصی توجہ اس کے مریض کو ملے جبکہ ایسا ممکن نہیں۔ اب جو سسٹم کے تحت آ گے بڑھتے ہیں انہیں تو توجہ مل جاتی ہے اور جو اپنی خود پسندی کے فریب میں مبتلا ہو کر زور زبردستی کی کوشش کرتے ہیں انہیں عملہ ہی چکر پہ چکر دے کر گھن چکر بنا دیتا ہے۔ نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے پی۔ آ ئی۔سی پر خصوصی توجہ دی جس سے بہت سی تبدیلیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔ پی۔ آ ئی سی پر ان کی توجہ اس کی اپنی اہمیت کے باعث تھی انہوں نے صحت کے حوالے سے دیگر اداروں کا بھی بھرپور خیال رکھا، موجودہ دور میں مریم نواز کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق بھی پوری ذمہ داری سے سرگرم پائے جاتے ہیں پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ پی۔ آ ئی۔ سی کی ایمرجنسی ہو کہ آ ؤٹ ڈور ،دو چیزیں بے حد نمایاں ہیں، ہر طرف مریم نواز کی تصویر کے ساتھ آگاہی بینر، صحت کارڈ کا حصول، مفت علاج کی سہولت اور دوسری جانب،، بٹ بہادر،، کی بھاگ دوڑ۔۔ مریضوں کے ساتھ لواحقین کی تعداد اس قدر زیادہ پائی جاتی ہے کہ تمام شعبہ جات کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے پھر بھی صبح آ ٹھ بجے سے بھی پہلے ،،بٹ بہادر،، ان ایکشن ہو جاتا ہے جہاں پہنچتا ہے تمام بے ترتیبی درست ہو جاتی ہے عام آ دمیوں سے ہاتھ ملانا اور پھر انتہائی پیار ،محبت سے انہیں،، گائیڈ،، کر کے قواعد و ضوابط میں لے آ تا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے، کاؤنٹر،، کی بھیڑ ختم ہو جاتی ہے۔ وہ ہسپتال کے عملے کی سرزنش بھی کرتا ہے بلکہ ضرورت کے مطابق فوری،، اکھاڑ پچھاڑ،، بھی ، جس سے منٹوں میں حالات میں بہتری بھی دکھا ئی دیتی ہے۔ یہ ،،بٹ بہادر ،،تین چار افراد اور ایک سرخ ٹوپی والے سکیورٹی اہلکار کے ہمراہ ہنگامی آپریشن کرتا نظر آ تا ہے جو،، خدائی خدمت گار،، ہرگز نہیں بلکہ اس ادارے کے ایم ایس ڈاکٹر رفیق عامر رفیق بٹ ہیں جو اپنے دفتر میں کم اور مختلف شعبہ جات کے ساتھ راہداریوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اکثر اوقات ان کے ساتھ اے۔ ایم ایس ڈاکٹر خرم شہزاد اور دیگر ذمہ دار بھی موجود ہوتے ہیں۔ اسکے باوجود مریضوں اور لواحقین کو قدم قدم پر پریشانی کا سامنا ہوتا ہے آ خر کیوں؟
سوال تو یہی ہے کہ اگر کسی ادارے کا سربراہ اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے ادا کر رہا ہے اور لوگوں کے لیے مددگار بھی ثابت ہو رہا ہے تو پھر وہاں افراتفری کیوں؟ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ ہم اگر کسی اور ملک میں جائیں تو قطار در قطار کھڑا ہونا ذمہ داری سمجھتے ہیں لیکن اپنی آ زاد ریاست میں تو ہم آ زاد ہیں اور آ زاد ہی کیا، بالکل آ زاد ہیں قواعد و ضوابط سے۔ لہذا نہ قطار میں کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کے لیے کوئی آ سانی۔ میں نے تین روز مسلسل لوگوں کے مسائل اور وسائل کا بغور جائزہ لیا ہے جس سے اس نتیجے پر پہنچا کہ مسائل کی بنیاد ہم خود ہیں، ہم سے مراد،، میں اور آپ ،،ہیں جو ہر ضابطے کی حدود پار کر کے جلد از جلد اپنے مسائل اور مشکلات کا حل چاہتیہیں میرے اندازے کے مطابق پانچ سے سات سو ڈاکٹرز اور اسٹاف فوری خدمت کے لیے ہر روز موجود ہوتا ہے ایمرجنسی، آ وٹ ڈور، لیبارٹریز، ایکو سیکشن، انجیوگرافی، انجیو پلاسٹی، سٹی سکین، ایکسرے اور ای۔ سی۔ جی کے علاوہ بائی پاس کے مریضوں کی مجموعی تعداد جتنی مرضی لگا لیں انکے ساتھ آ نے والوں کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق بھی مریضوں سے تین چار گنا زیادہ ہوگی، جو اپنی پریشانی میں کمی کی خواہش میں دوسروں کی مشکل میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ وجہ صرف یہی ہے کہ انسان کے پاس جو ہوتا ہے وہی دوسروں میں تقسیم کرتا ہے لہٰذا کسی سے شکوہ اور گلہ کرنے کی بجائے اگر تھوڑا سا صبر کر کے دل کو یہ تسلی دے لیں کہ ایمرجنسی ،بیماری، دل ناداں کی پریشانی سب کی ایک جیسی ہے، ضروری نہیں کہ سب صبر و تحمل، خلوص، اپنائیت، بے غرضی جیسے جذبوں سے مالا مال ہوں اس لیے جہاں سے جو ملے، سمجھ لے کہ دینے والے کے پاس اس کے ظرف کے مطابق یہی کچھ ہے۔ یہ تو یقینی بات ہے کہ سب میں برداشت ،رواداری کا حوصلہ کبھی بھی یکساں نہیں ہوتا، ویسے بھی بڑا دشمن اپنا منہ ہوتا ہے۔ اگر پرسکون زندگی کیلئے اسکو بند رکھا جائے تو آ دھے معاملات خود بخود درست ہو جاتے ہیں۔ انسانیت کا تقاضہ ہے کہ صرف اپنے لیے مفاد پرستی میں آ سانیاں نہ مانگی جائیں بلکہ دوسروں کیلئے آ سانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ،، پبلک سروس کاؤنٹر،، پر تعینات مرد و زن اکثر بددماغی کا مظاہرہ کرتے پائے گئے ہیں جس سے فوری طبی امداد کے مستحق مریضوں کی ہی نہیں بلکہ ان کے پریشان حال لواحقین کی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں اور ضرورت مندوں کو مختلف کاؤنٹرز پر دھکے کھانے پڑتے ہیں بلکہ اکثر جگہ چھوٹا عملہ،، مس گائیڈ،، کرتا ہے جس سے واقعی دکھوں میں اضافہ ہوتا اور بٹ بہادر کی بھاگ دوڑ خاک میں مل جاتی ہے۔ یوں کئی لوگوں کو زیر لب یہ الزام لگاتے بھی سنا کہ بٹ صاحب،، شو بازی، ڈو نیتھنگ،، کے فارمولے پر کاربند ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہسپتال ملازمین اپنے سربراہ کو کام کرتا نہیں دیکھنا چاہتے ،ہمارے ہاں بدقسمتی سے ہر شعبے میں ایسے واقعات وقتا فوقتا دیکھے جاتے ہیں جو یقینا افسوسناک ہیں، پی۔ آ ئی۔ سی ایک بڑا ادارہ ہے جہاں عام آدمی اور خاص آدمی کی یکساں دیکھ بھال کی جاتی ہے سرکاری ادارہ قومی سرمائے سے چلایا جا رہا ہے یہاں صحت کارڈ بھی ہر اس شخص کا حق ہے جسکے پاس قومی ،،شناختی کارڈ،، موجود ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ صحت کارڈ بنانے کیلئے خصوصی شعبہ بھی قائم کیا گیا ہے۔ یعنی تمام مسائل ایک چھت کے نیچے حل ہو جاتے ہیں لیکن معاملات سب نے مل کر ایسے بگاڑے ہیں کہ بہترین کوشش کے باوجود سدھر نہیں پا رہے، وجوہات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، پھر بھی مثبت نتائج اس لیے نہیں نکل پا رہے کہ وقت گزاری کرنے والوں کی تعداد کام سے زیادہ ہے۔ بٹ بہادر یا ان جیسے دوسرے اعلی افسران آتے جاتے رہتے ہیں جبکہ چھوٹا اسٹاف اور عوام الناس وہی ہیں‘ جب تک انکے رویوں میں تبدیلی نہیں آ ئیگی، کیا خیال ہے آ پکا ،کوئی تبدیلی آ سکتی ہے؟
پی۔ آ ئی۔ سی میں بڑی ہمشیرہ زیر علاج تھیں لہذا تین روز لازمی سروس میری ذمہ داری تھی۔ اس ذمہ داری میں جو مشاہدہ ہوا وہ کوئی حوصلہ افزا نہیں۔ صاف ستھرا ماحول ، علاج بھی مفت اور سرکار کی کوشش ہے کہ اسے خدمت اور سہولت کا بہترین ماڈل بنایا جائے اسی جذبے میں ادویات بھی فری لیکن،، ہم اور آ پ،، لگتا ہے کم حوصلہ ہیں۔ ذرا سے امتحان میں گھبرا جاتے ہیں کہ اپنے پیاروں کی پیار میں جدائی برداشت کرنے کو تیار نہیں حالانکہ بطور کلمہ گو موت برحق ہے اور اس کا وقت بھی مقرر، نہ ایک سیکنڈ پہلے نہ ہی تاخیر کی گنجائش، پھر بھی جاہل گنوار ہی نہیں، اچھے بھلے پڑھے لکھے بھی ایک ہی جھٹکے میں آ دمی سے جانور ایسے بن جاتے ہیں جیسے کبھی ہم انسانیت کے قریب سے نہیں گزرے، یہ سب کچھ معاشرتی بدحالی ہے۔ ہم اپنے لیے رب سے بلکہ سب سے آ سانیاں مانگتے ہیں لیکن کسی دوسرے کیلئے یہ جذبہ نہیں رکھتے، اس لیے کہ ہم میں رواداری اور برداشت بالکل نہیں، ہم مفادات اور ذاتیات کے حوالے سے تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں ،ہم ہر ادارے سے بہترین برتاؤ کی توقع رکھتے ہیں لیکن خود ملازمین کو سرکاری نہیں ذاتی ملازم سمجھتے ہیں۔ بس انہی رویوں کا رد عمل ان کی جانب سے ملتا ہے تو دیوار سے ٹکراتے پھرتے ہیں۔ جس ادارے میں بھی چلے جائیں یہی حالات ہیں خواہ وہاں کتنے ہی،، بٹ بہادر ،موجود کیوں نہ ہوں۔ بٹ صاحب سے میری ایک دو بار ہاتھ ملاتے ہوئے ملاقات راہداری میں ہی ہوئی۔ میں ان کی بھاگ دوڑ دیکھ کر متاثر ہوا میرے خیال میں ذمہ دار افسران کا کام محض دفاتر میں بیٹھ کر حکم چلانا نہیں ہوتا بلکہ اسے اپنے اداروں کے ہر شعبے اور کارکردگی سے واقف ہونا چاہیے۔ اگر مان لیں کہ،، بٹ بہادر،کی آ نیاں جانیاں صرف دکھاوا ہیں تب بھی اس ہلچل سے میں نے بہت کچھ درست ہوتا دیکھا ہے۔ جن اداروں میں عوامی اجتماعی معاملات میں بہتری کی گنجائش ہے وہاں سربراہوں کو کسی بھی صورت دفتر میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ صرف اس معمولی سی کوشش سے مثبت راستے نکل سکتے ہیں تاہم یہ سوال اہم ہے کہ عام آ دمی اور سرکاری ملازمین کے رویوں کو کیسے بدلا جائے؟۔