سید محمد قاسم رضوی

لائل پور کے دوسرے دورہ کے سلسلے میں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہاں سر چھوٹورام کے جلسے کو کامیاب کرنے کے لئے جلسہ گاہ سے باہر جب دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی تو میں ایک وفد لے کر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا تھا۔ مگر وہ ہماری کوئی بات سننے کے لئے تیار نہ تھے اور اپنے موقف کی حمایت میں بھی اُنہوں نے کوئی دلیل پیش نہیں کی، میں اُن کی کوٹھی پر بھی گیا مگر وہاں بھی یہ صورت پیش آئی کہ انہوں نے کوئی بات سنے بغیر ہمیں اپنی کوٹھی سے باہر نکال دیا۔
میں نے جب یہاں پچھلے دنوں ڈپٹی کمشنر کے عہدہ کا چارج لیا تھا تو موجودہ ڈسٹرکٹ کونسل ہال اور ڈپٹی کمشنر کی قیام گاہ کا جائزہ لیا پرانی یادوں کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں کا ماحول پہلے سے کہیں مختلف ہے۔
میں ڈپٹی کمشنر کی قیام گاہ کے اُس گوشے میں کھڑا ہوکر یہ بھی سوچتا رہا کہ خدا کرے کوئی ایسا موقع نہ آئے کہ کوئی شخص کوئی جائز اور صحیح مطالبہ لے کر آئے اور میں اس کے ساتھ وہ سلوک کروں جو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے میرے ساتھیوں سے روا رکھا تھا۔
اس وقت یہاں کے مقامی مسلم لیگی راہنما بھی بڑے ’’محتاط‘‘ تھے اور ہمارے طلبہ کے توجہ دلانے کے باوجود اُنہوں نے ہماری مہم میں ہمارا کوئی ہاتھ نہ بٹایا۔ بلکہ وہ کسی حد تک ہماری ان سرگرمیوں کے مخالف بھی تھے۔بیتے لمحوں کی یادوں میں مجھے شہید عبدالمالک بھی یاد آرہا ہے مجھے افسوس ہے کہ میں اس وقت لاہور میں نہیںتھا جب اس جانباز طالب علم نے جامِ شہادت نوش کیا، ہم پچیس طالب علم چوہدری خلیق الزماں کے الیکشن کے سلسلے میں لکھنؤ گئے ہوئے تھے اس مہم میں ہم نے ایک پائی تک بھی مسلم لیگ کے فنڈ سے خرچ نہیں کی بلکہ تمام خرچ اپنی جیب سے کیا۔
لاہور کے چند جلسے بھی ہماری زندگی کے ان سرگرم ایام کی یادوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں اس جلسۂ عام میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ادا کررہا تھا جو اسلامیہ کالج لاہور کی گرائونڈ میں منعقد ہوا تھا۔ قائد اعظم مرحوم اہالیان لاہور سے خطاب فرمارہے تھے کہ اچانک ایک بے وقت اذان کی آواز سنائی دی قائدِ اعظم تقریر کے دوران یکا یک رک گئے اور مجھ سے سوال کیا، ’’یہ اذان کا کون سا وقت ہے؟‘‘ اس کے بعد اذان ختم ہونے تک خاموش کھڑے رہے۔ کچھ لمحوں بعد علامہ مشرقی باوردی خاکساروں کے ایک مضبوط ’’جیش‘‘ کے ساتھ سٹیج کی طرف آدھمکے، علامہ مشرقی نے آتے ہی مرحوم قائدِ اعظم سے تقریر کی اجازت طلب کی۔ قائد اعظم مرحوم نے علامہ مشرقی کو مختصر اور قانونی جواب دیتے ہوئے کہا، ’’جلسہ کے منتظم تو رضوی صاحب ہیں ان سے پوچھ لیجئے میں تو مہمان ہوں‘‘
چنانچہ علامہ مشرقی میری جانب متوجہ ہوئے میں نے اُن سے عرض کیا کہ پہلے قائد اعظم کو تقریب سے رخصت ہولینے دیجئے۔
قائداعظم نے تقریر ختم کی ہی تھی کہ علامہ مشرقی نے مائیکرو فون پکڑ لیا، میں نے ان سے مائیکرو فون چھیننے کی کوشش کی مگر یکایک مشرقی صاحب کے ساٹھ ستر رضاکار بیلچوں سمیت سٹیج پر آدھمکے، اس اثناء میں ہمارے ایک کارکن نے لائوڈ سپیکر کی تار کھینچ دی جس سے یہ بے کار ہوگیا، ادھر مشرقی صاحب کے رضاکاروں نے قناتوں اور شامیانوں کی رسیاں کاٹنا شروع کردیں جس کے نتیجے میں بہت سے شامیانے حاضرین پر آگرے۔مجھے اس وقت اپنے چھوٹے قد سے فائدہ اٹھانے کا خوب موقعہ ملا میں بالکل محفوظ تھا حالانکہ بعض دوسرے کارکنوں کی گردنیں شامیانوں کے بوجھ سے دوہری ہورہی تھیں۔
میں بہت خوش تھا کہ اس جلسہ میں فیڈریشن کے کارکنوں نے نظم و ضبط کا بہت عمدہ مظاہرہ کیا ہے حالانکہ اس روز جب قائدِ اعظم صبح ریلوے سٹیشن پر تشریف لائے تھے تو بد نظمی کی وجہ سے زبردست ہلڑ بازی کا افسوس ناک مظاہرہ دیکھنے میں آیا تھا۔ ہلڑ بازی کی کیفیت یہ تھی کہ نواب ممدوٹ ایسے لوگ بھی قائدِ اعظم سے ہاتھ تک نہ ملا سکے چنانچہ اس بد نظمی کے ذمہ دار کارکنوں کو یہ سزا دی گئی کہ ان میں سے ہر ایک کی پیشانی پر سیاہ داغ لگادیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ داغ صرف اس صورت میں صاف کرنے کی اجازت دی جائے گی جب شام کا جلسہ پورے نظم و ضبط سے اختتام پذیر ہوجائے، چنانچہ شام کے اس جلسہ میں ان کارکن طالب علموں کی پیشانیوں پر سیاہ داغ نمایاں طور پر دکھائی دے رہے تھے، خدا کا شکر ہے کہ شام کے جلسہ میں نظم و ضبط کی پابندی کی بدولت ان کے یہ داغ دھل گئے۔
لاہور کا ایک اور جلسہ بھی یادگار ہے۔ یہ جلسہ مجلسِ احرار اسلام کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا اور اس میں مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کو خطاب کرنا تھا، ہم اکیس طالب علموں نے جن میں لائل پور کے چوہدری نصراللہ خاں مرحوم اور ایک دوسرے سرگرم کارکن مہرمحمد صادق بھی شامل تھے، پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر علامہ اقبال کی مشہور رباعی… سرود برسرِ منبر… لکھی ہوئی تھی، تقریر کے دوران ہم نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا ایک ہی نعرہ لگایا تھا کہ جلسہ کا تمام نظام یکا یک درہم برہم ہوگیا اور ہر طرف سے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف اور پُرجوش نعرے سنائی دینے لگے، احرار کارکنوں نے ہماری خوب سرکوبی کی ہم میں سے بہت سے کارکن زخمی ہوگئے حتّٰی کہ ہمارے پُرجوش ساتھی مہر محمد صادق کا سر پھٹ گیا۔ اگلے روز ہم نے اپنی اس مظلومیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زبردست جلوس نکالا، ہم اکیس کے اکیس طالب علم جلوس کے آگے آگے تھے جن میں سے اکثریت اپنے ان زخموں پر پٹیاں باندھے ہوئے تھی جو احرار کارکنوں کے حملوں سے پہنچے تھے۔ عام لوگ ہماری اس مظلومیت سے بے حد متاثر ہوئے اور ہمارے حق میں اس قسم کے جملے بھی کہے گئے کہ:… ’’بلا شبہ تم لوگ وارثانِ بدر میں سے ہو‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا یہ جلوس احرارکے کفن کا آخری ٹانکا ثابت ہوا۔
طلبہ کی یہ سرگرمیاں قائدِ اعظم کی ہدایت کے عین مطابق تھیں، یہ فی الحقیقت NATIONAL EMERGENCY کا وقت تھا۔
قائدِ اعظم نے واضح طور پر یہ حکم دیا تھا کہ کالجوں سے نکل جائو اس لئے کہ ایک نسل کی تعلیم کے مقابلے میں نسل ہا نسل کی زندگی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ 
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جدوجہدِ آزادی میں طلبہ کی گہری دلچسپی بے حد ضروری تھی اور انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ تحریک پاکستان کا سفینہ ساحلِ مراد سے آشنا ہوا، ایسی ضرورت صرف قومی ہنگامی حالات میں ہی پیدا ہوسکتی ہے کہ مختلف طبقے اپنے روزمرہ کے مشاغل چھوڑکر اہم تر قومی مسائل میں دلچسپی لیں۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن