ہندوستان سے علیحدہ ملک بنانے کے لئے مسلمانوں نے تن من دھن کی بازی لگائی اس کے نتیجے میں صرف ہم نے علیحدہ ملک پاکستان ہی نہیں حاصل کیا بلکہ دنیا کو ثابت کیا کہ ہم ایک قوم ہیں ، ملک حاصل کرنے کے بعد اس ملک کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے اور اپنے گھر بار اور کاروبار کو چھوڑ کر جس جذبے سے ملک پاکستان حاصل کیا تھا ، اور ہندوستان کو تقسیم کیا تھا ،وہ جذبہ رفتہ رفتہ ٹھنڈا پڑتا گیا ، اور بحیثیت پاکستانی ہم نے قوم کو بھی تقسیم کردیا ۔
ملک منافقانہ سیاست میں گھرا ہوا ہے ، سیاست ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بن گئی ہے ، یہ جن کو سیاست داںکہا جاتا ہے یہ عوام کو اپنے دھرے معیار کی زنجیروں میں جکڑ ے ہوئے ہیں ، 2016 ء میںسوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر سائبر کرائمز کو کنٹرول کرنے اور روکنے کے غرض سے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا ایکٹ( PECA )حکومت نے نافذ کیاتھا ،پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جب یہ پیکا کا قانون بنایا تھا تو سائبر قوانین کے ماہرین نے انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ یہ قانون ان کے خلاف استعمال ہوگا ، لیکن پی ایم ایل نون کے قیادت یہ بات سمجھنے سے قاصر رہی اور جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پی ایم ایل نون کے کارکنان اس متنازع قانون کی زد میں لائے گئے۔
پی ٹی آئی کی حکومت میںسابق صدرڈاکٹر عارف علوی نے پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا ) ترمیمی آرڈیننس جاری کیا ، پی ٹی آئی حکومت نے بھی پیکا قانون میں تبدیلی کر کے وہی غلطی دہرائی جو نون لیگ نے کی تھی ،پی ٹی آئی کے وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے پریس کانفرنس میں پیکا قانون میں ترمیم کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے جن دفعات کا ذکر کیا تھا ،ان ہی دفعات کو موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دہرایا جو کہ پاکستان کے ایوانِ زیریں قومی اسمبلی اور ایوان بالا سینٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی پیکا ترمیمی بل پر توثیق کی ہے۔
2016ء میں جعلی خبروں کے سد باب کے لئے قانون میں فیک نیوز پھیلانے والوں کو تین سال کی سزا تجویز کی گئی تھی ، جو کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں اس سزا کو بڑھا کر پانچ سال کیا گیا تھا ، حالیہ منظور کئے گئے پیکا قانون میں دوبارہ یہ سزا تین سال یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کی گئی ہے ،نیز نئے ترمیم شدہ پیکا آرڈیننس کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اٹھارٹی سے رجسٹرڈ کرانا لازمی ہو گا ، اتھارٹی نظریہ پاکستان کے بر خلاف شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی ، دوسرا یہ کہ اتھارٹی آرمڈ فورسز ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز قرار دی گئی ہے ، پارلیمنٹ کی کاروائی کے دوران حذف کئے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیا جا سکے گا ۔پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر بھی اپلوڈ نہیں کئے جا سکیں گے ۔
منظور شدہ پیکا ایکٹ میں غیر قانونی مواد کی تعریف میں توہین عدالت، غیر اخلاقی مواد، ملکی سلامتی کے خلاف بیانات اور ریاستی اداروں بشمول عدلیہ اور فوج پر تنقید شامل کی گئی ہے ، یہی ایک دفعہ ہے جو کہ اپوزیشن پی ٹی آئی کو پسند نہیں اور وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں ، کیونکہ ملک کے استحکام اور سلامتی کے خلاف ہرزہ سرائی اور فوج پر تنقید سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ہوتی ہے وہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنان کی طرف ہی برملا کی جاتی ہے، جہاں تک پیکا ترمیمی بل پر مشاورت کا تعلق ہے تو وزیر قانون نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ اس بل پر گذشتہ ساڑھے تین برسوں سے مشاورت ہورہی تھی ، سینئر صحافی نادر گرمانی نے صحافتی تنظیموں سے مشاورت کے کے مسئلے پر اختلاف کیا ان کا کہنا ہے کہ دوسال پہلے یہ مشاورت شروع ہوئی ڈرافٹ سامنے آیا رپورٹ ہوا جب سیاسی جماعتوں کے پاس گیا ، انہوں نے تجاویز دیں ، ایک ماہ قبل وہی فائنل ڈرافٹ رپورٹ ہوا، اس کے باوجود صحافتی تنظیمیں احتجاج تو کجا ایک ٹویٹ تک نہیں کرتیں ، جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا ، صحافتی تنظیموں نے احتجاج تب شروع کیا جب یہ بل ایک ایوان سے منظور ہوا ، یہی نہیں سینٹ میں پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ میں یہ بل منظور ہوا ، پی ٹی آئی اور صحافتی تنظیموں کا پیکا بل کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعد احتجاج معنی خیز ہے ۔
سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کا بڑھتا ہواعالمی رجحان پاکستان میں بھی ڈیجیٹل مصروفیت اختیار کر گیاہے جس میں روز بروز اضافہ دیکھا جا سکتاہے ، سوشل میڈیا مفید معلومات مہیا کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا لیکن اس پلیٹ فارم نے غلط معلومات ، پروپیگنڈے اور جعلی خبروں کی کے لئے آسانیاںمہیا کیں، پاکستان میں جھوٹے پروپیگنڈے ، نفرت انگیز مواد ، تقاریر، اور قومی سلامتی کو نشانہ بنانے والے مواد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ، ایسے مواد میں بہت سے پس پردہ عوامل بھی کار فرما ہیں جن کا مقصد اندرونی معاملات میں گڑ بڑ پھیلا کر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بد نام کیا جانا ، پیکا قانون کو اس طرح کی بدنیتی پر مبنی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو منظم کرنے کے لئے متعارف کرایا گیا ہے ، پھر پیکا قانون پہ ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
سوشل میڈیا پر غلط معلومات ، کردار کشی اور نفرت انگیزی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانا بہت ضروری ہے ، دنیا کے کئی ممالک میں ایسے قوانین موجود ہیں جو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرتے ہیں تاکہ فیک نیوز اور غیر اخلاقی مواد کو پھیلنے سے روکا جا سکے، مسئلہ تب پہدا ہوتا ہے ، جب ایسے قوانیں کو آزادی اظہار کو دبانے یا سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائے ، اگر پیکا قانون کو ایک غیر جانبدار اور شفاف طریقے سے نافذ کیا جائے ، جہاں تمام افراد کے لئے یکساں ضوابط ہوں تو یہ واقعی ایک مثبت قدم ہوگا ۔
اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس قانون کا اطلاق عملی طور پر کیسے ہوتا ہے اگر اس کے نفاظ میں شفافیت اور غیر جانبداری بر قرار رکھی گئی تو اس سے سوشل میڈیا کے ماحول کو بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔