کیا اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صفات پر بنایا ہے؟

قارئین تھوڑی دیر کیلئے اگر ہم پوری ایمانداری سے ایک ٹھوس احساس کے تحت یہ سوچنے بیٹھیں کہ کیا واقعی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صفات پر خلق کیا ہے؟ اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے؟ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ کیا کیا ہیں؟ تو ہماری سوچ قرنوں تک اس حقیقت یا راز کا خاص طور پر احاطہ کرنے سے قاصر ہے کہ اس کی صفات کیا کیا ہیں؟ سوائے اور محض اور چند صفات کے، جن کے بارے میں ہماری سوچ ہمارا ساتھ دے سکتی ہے، اس کے بعد ذرا بھی آگے بڑھنا چاہیں تو ہماری عقل و منطق مکمل طور پر ہار جاتی ہے، وہ یکساں صفات جو واضح طور پر ہمارے سامنے ہیں وہ یہ ہیں:-
-1 وہ خالق اول ہے، لہٰذا انسان کو بھی تخلیق کرنے کی صفت ودیعت کی گئی ہے۔ -2 وہ اپنی خلقت سے حددرجہ پیا رکرتا ہے اس لئے اپنی خلقت کو بھی حکم دیا کہ وہ ایک دوسرے سے پیا رکریں۔ -3 وہ اپنی تخلیق کے کسی بھی ذرے سے نفرت نہیں کرتالہٰذا انسان کو بھی کسی سے نفرت نہ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ -4 وہ مکمل حق ہے اس لئے انسان کو حق گوئی کی تلقین فرمائی۔ -5 ہمارے سرور کائنات ہمارے نبی پاک سے عشق فرمایا، اس لئے انسانوں کو بھی اس سے ان سے عشق کرنے کا حکم دیا اور انہی کی شفاعت سے سب کو بخشنے کا وعدہ فرمایا۔ -6 وہ معاف فرمانے والا ہے اس لئے درگزر کرنے والوں کو عزیز رکھتا ہے۔ -7 رحیم ہے لہٰذا انسانوں کو بھی انسانوں پر اور جانوروں پر رحم کا حکم دیتا ہے اور قہر و ظلم کو ناپسند فرماتا ہے۔ -8 وہ نرم ہے، کرم و حلم کی انتہا ہے اس لئے نرم خو لوگوں کوجنت کی بشارت دیتا ہے اور انصاف کے ترازو میں خلق اعلیٰ کو بھاری ترین وزن قرار دیتا ہے۔ -9 ستارِ اعظم ہے اس لئے لوگوں کو بھی ایک دوسرے کی عیوب پوشی کو پسند فرماتا ہے۔ -10 وہ انسان کے اعمال کو نہیں نیت کو دیکھتا ہے لہٰذا انسان کی قدر کی ساری قیمت بھی اس کی نیک نیتی ہی کے حوالے سے لگاتا ہے۔ -11 وہ ہر بندے کا دوست ہے لہٰذا مخلوق کو بھی دوست داری اور ایک دوسرے سے محبت کرنے کا حکم دیتا ہے، دشمنی کو ناپسند فرماتا ہے۔ -12 انسان کو خلیفة اللہ کا درجہ دیا تو ساتھ ہی حکم دیا کہ وہ خود کو اس اعزاز کا اہل بھی ثابت کرے۔
قارئین! اب ان تمام حقائق کی روشنی میں سوچنا بلکہ کہنا یہ ہے کہ رب رحیم و کریم نے ہمیں جو جو نعمتیں اور صفات بصد رحم عطا فرمائی ہیں، کیا ہم نے ان کو آنکھوں سے لگاکر کبھی ربِ کریم کا شکر بھی ادا کیا ہے؟ خود کو ان کا اہل بھی ثابت کرسکے ہیں؟ یا ان صفات اور نعمتوں کی تحصیل کے بعد خود کو گمراہی کی راہ پر ڈال کر بزعم خود، خود کو صراط المستقیم پر سمجھ کر راہِ مستقیم سے بھٹک گئے ہیں؟
ہم ناشکرے جو محض مٹی کی مٹھیاں ہیں، اُس کو بھلا کر اپنی اپنی جگہ خود نعوذباللہ خدا بن بیٹھے ہیں، دنیا کی ہر وہ برائی جسے ا سکی شان نے رَد فرما دیا، ہم نے اپنالی ہیں اور شاید یہ سوچ لیا ہے کہ ہم دوبارہ اٹھائے نہ جائیں گے۔ ہم میں عقل کل ہونے کا مان بھر گیا ہے حالانکہ اس کے حکم کے بغیر ہم محض ایک سانس بھی نہیں لے سکتے۔ ہمارا ہر عمل، ہماری ہر تخلیق اس کے کرم کے بغیر بے معنی اور ادھوری ہے۔
مثال کے طور پر خاک رسیدہ انسان، انسان کو تخلیق کرتا ہے مگر وہ تخلیق اس خالق اول کے حکم سے مٹی کا رزق ہوجاتی ہے۔ جبکہ رب العالمین اپنی تخلیق کردہ کائنات اور مخلوق کو نیست کرکے صدیوں بلکہ قرنوں کے بعد بھی دوبارہ ہست میں لا سکتا ہے۔ ایک ماہر کاریگر مٹی کا خوبصورت ترین کھلونا تخلیق کرسکتا ہے مگر وہ اس سے ایک بار اگر ٹوٹ جائے تو پھر اس کے لئے بعینہ ویسا بنانا ممکن نہیں رہتا، اس میں ضرور کوئی نہ کوئی کمی بیشی رہ جاتی ہے لیکن اکمل ذات حق، اکمل ترین حق ہے جب چاہے، جیسا چاہے دوبارہ بنا ڈالے۔ اے کاش ہم خود کو اس کی عطا کردہ صفات کی عطا کا اہل ثابت کرسکیں۔

ای پیپر دی نیشن

History

Close |

Clear History