17۔اکتوبر کو سرسید احمد خان کی 200ویں سالگرہ منائی گئی۔ سرسید کو ہم پاکستان کا معمارِ اول کہہ سکتے ہیں۔ سرسید نے 1865ء میں کہا تھا کہ ہندوستان میں ایک قوم نہیں بستی، مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں بستی ہیں۔ سرسید کے جانشین نواب محسن الملک نے انتخاب کے اس سوال کو اٹھایا اور قوم کے قریب ستر نمائندگان پر مشتمل ایک وفد لے کر گورنر جنرل کے پاس پہنچا۔ ہندوستان کی سیاست میں یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اس قسم کا قدم اٹھایا۔ یہ کیا تھا؟ سرسید کی ان کوششوں کا نتیجہ کہ مسلمان کو مغربی تعلیم سے بے بہرہ نہیں رہنا چاہیے ۔ اس جدوجہد نے آگے چل کر جداگانہ تنظیم کی شکل اختیار کی اور 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا وجود عمل میں آیا۔ جس کے جائنٹ سیکرٹری علی گڑھ تحریک کے روح رواں نواب محسن الملک اور وقار الملک تھے۔ لیگ کا صدر مقام بھی علی گڑھ ہی تھا۔ یہی وہ تنظیم تھی جو آگے بڑھتے بڑھتے تحریک پاکستان کی صورت اختیار کر گئی اور 1947ء میں یعنی سرسید کی وفات کے پچاس سال بعد مسلمانوں کی جداگانہ مملکت کے حسین پیکر میں نمودار ہوئی۔ اس تحریک آزادی میں وہی لوگ پیش پیش تھے جو یا تو علی گڑھ کے پروردہ تھے یا سرسید کی تعلیمی تحریک کے ماتحت قائم کردہ دیگر اداروں کے پیدا کردہ۔ اگر سرسید یہ کچھ نہ کر جاتے تو محمد علی ہوتا نہ شوکت علی، نہ اقبال ہوتا نہ جناح اور ہم آج ہندوستان میں شودروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ انہوں نے علی گڑھ مدرسہ کا افتتاح کیا تھا یعنی 24مئی 1875ء میں، اس مدرسے نے صرف گریجوایٹس پیدانہیں کیے، مسلمان گریجوایٹس پیدا کیے تھے۔ سرسید وہ کام کر گئے جس نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ جب مولانا حالی نے سرسید احمد خان کے سوانح حیات مرتب کرنے کا ارادہ کیا تو سرسید سے اس کی زندگی کے متعلق پوچھا۔ سرسید کا جواب تھا ’’میری لائف میں اس کے سوا کہ لڑکپن میں خوب کبڈیاں کھیلیں، کنکوے اڑائے، کبوتر پالے، ناچ مجرے دیکھے اور بڑے ہو کر نیچری، کافر اور بے دین کہلائے، اور رکھا ہی کیا ہے‘‘
سرسید نے یہ بات اس وقت کہی جب ان کی عظمت کا شہرہ ساری دنیا میں پھیل چکا تھا۔ اس وقت ایسا اعتراف وہی شخص کر سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خلوص و دیانت کی نعمت سے نوازا ہو۔ یہ کسی مصنوعی لیڈر کے بس کی بات نہیں ہو سکتی۔ آج کل کے مصنوعی لیڈروں کی ’’کرتوتوں‘‘ سے آپ بخوبی واقف ہیں۔سرسید احمد خان کے دل میں علم کی عظمت کا احساس کس قدر شدید تھا، اس کا اندازہ اس دعا سے لگایا جا سکتا ہے جو اس مدرسے کا سنگِ بنیاد رکھتے وقت ان کے لبوں پر ان الفاظ میں آ گئی تھی۔ ’’اے خدا! ہم میں روز بروز علم کی کمی اور جہالت کی تاریکی آتی جا رہی ہے۔ تونے ہمارے دلوں کو پھیرا کہ ہم علم کی روشنی پھیلانے پر مستعد ہوئے۔ ہم سب تیرا شکر ادا کرتے ہیں کہ تو نے ہمارے دلوں کو ایسے کاموں کی طرف پھیرا جو نہ صرف ہمارے ہی لیے مفید ہیں بلکہ ہمارے بعد جو بہت سی نسلیں آنے والی ہیں، ان کے لیے بھی ایک روشنی ہے۔ اے خدا! تو خوب جانتا ہے کہ یہ مدرسہ جس کا پتھر آج ہم نے تیرے نام پر رکھا ہے، تیری مخلوق کے فائدے کے لیے رکھا ہے۔ تو اپنے فضل سے، اسے اپنے نام پر قبول فرما۔‘‘
سرسید نے محسوس کیا کہ اب ملازمت میں رہتے ہوئے کام کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ مجھے تحریک کے لیے سارا وقت وقف کر دینا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے 1876ء میں پنشن لے کر علی گڑھ کو مستقل طور پر اپنا مسکن بنا لیا۔ سرسید کی بیوی کا انتقال 1861ء میں ہو گیا تھا جب سرسید کی عمر چوالیس برس کی تھی۔ انہوں نے اس کے بعد شادی نہیں کی تا کہ پوری توجہ تحریک کی طرف دی جائے۔ تمام تر مخالفتوں کے باوجود کالج بن گیا اور اس کے نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے۔ کلکتہ، مدراس اور ممبئی میں 1858ء میں کالج کھل گئے تھے جہاں ہندوؤں نے داخلے لینے شروع کر دئیے تھے اور مسلمانوں سے کہا جا رہا تھا کہ انگریزی پڑھنا حرام ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ 1875ء تک جب علی گڑھ مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی، ملک میں قریب آٹھ سو ہندو گریجوایٹس تھے اور صرف بیس مسلمان۔ علی گڑھ کالج 1878ء میں کھلا اور اس کے بیس سال بعد (جب سرسید کی وفات ہوئی) ملک میں 126 گریجوایٹس اور 174 انڈر گریجوایٹس تھے۔ الہ آباد کے ایک ہندو پنڈت نے کہا تھا کہ ’’ہم مسلمانوں سے دولت میں زیادہ ہیں، تعداد میں زیادہ ہیں ، کوئی سرسید احمد خان نہیں بلکہ ہم اگر بیس بھی مل کر ایک ہو جائیں تو بھی سرسید احمد خان کے برابر نہیں ہو سکتے‘‘
سرسید نے کبھی شہرت کی خواہش نہ کی۔ جو لوگ کالج فنڈ میں عطیات دیتے تھے، وہ ان کے نام کتبوں پر کندہ کرا کر مناسب مقامات پر نصب کرا دیتے تھے۔ جو لوگ اپنے خرچ سے کمرے اور ہال بنوا دیتے تھے، وہ ان عمارات کو ان کے نام کے ساتھ منسوب کر دیتے تھے لیکن اپنے نام کا کہیں کوئی کتبہ نصب کرایا نہ کسی عمارت کو اپنے نام سے منسوب کیا۔ یہ بھی تجویز کی گئی کہ کالج کا نام ان کے نام پر رکھا جائے۔ سرسید نے اسے بھی مسترد کر دیا۔ ان کی عمر کے آخری حصہ میں بعض دوستوں نے چاہا کہ Founder's Day منائیں۔ سرسید کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا۔ جس کالج کو قوم کے پیسوں سے تعمیر کیا گیا ہو اس کا بانی (فونڈر) کہلانے کا حق کس کو حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر تم نے منانا ہے تو Foundation Day یعنی یومِ تاسیس مناؤ۔ چنانچہ 24 مئی 1875ء کو تقریب منائی جاتی رہی۔ کام کی زیادتی نے سرسید کی صحت پر بُرا اثر ڈالا۔ صحت کی کمزوری، عمر کی زیادتی اور کام کی کثرت نے اس شاہ بلوط کو گرا لیا۔ 27 مارچ 1898ء کی شب آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کا صندوق کھولا گیا تو اس میں صرف پانچ روپے نکلے، چنانچہ ان کے کفن کا انتظام بھی ان کے دوستوں نے کیا۔ یہی وہ شمعیں ہیں جن سے انسانیت کی راہیں ہمیشہ جگمگاتی رہیں گی۔