ترجمہ البیان فی تراجمات القرآن
اور (اے مسلمانو) تیار رکھو ان کے لیے (ہتھیاروں کی) قوت سے جس قدر تم میں استطاعت ہو اور گھوڑوں کے باندھنے سے، ان سے تم دھاک بٹھاؤ اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن پر اور ان کے ساتھ دوسروں پر جنہیں تم نہیں جانتے انہیں اللہ جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں تم جو کچھ خرچ کرو گے گے (اس کا اجر) تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم ظلم نہیں کئے جاؤ گے
تفسیر صراط الجنان
(ترجمہ ) اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو۔ اس آیت میں قوت سے مراد یہ ہے کہ اسلحے اور آلات کی وہ تمام اقسام کہ جن کے ذریعے دشمن سے جنگ کے دوران قوت حاصل ہو ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قلعے اور پناہ گاہیں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رمی یعنی تیر اندازی ہے۔
(1) جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سید عالم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں قوت کے معنی رمی یعنی تیر اندازی بتائے۔ (2) فی زمانہ میزائل وغیرہ بھی اسی میں داخل ہوں گے۔(ترجمہ )سے حاصل ہونے والی معلومات :
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں
(1)۔ جہاد کی تیاری بھی عبادت ہے اور جہاد کی طرح حسب موقع یہ تیاری بھی فرض ہے جیسے نماز کے لیے وضو ضروری ہے۔
(2)۔ عبادت کے اسباب جمع کرنا عبادت ہیں اور گناہ کے اسباب جمع کرنا گناہ ہے جیسے حجِ فرض کیلئے سفر کرنا فرض ہے اور چوری کے لیے سفر کرنا حرام ہے۔
(3)۔ کفار کو ڈرانا دھمکانا اپنی قوت دکھانا بہادری کی باتیں کرنا جائز ہیں حتّٰی کہ کافروں کے دل میں رعب ڈالنے کیلئے غازی اپنی سفید داڑھی کو سیاہ کرسکتا ہے ورنہ ویسے سیاہ خضاب ناجائز وگناہ ہے۔
فتح و نصرت کی عظیم تدبیر :
مذکورہ بالا آیت ِ کریمہ فتح و نصرت اور غلبہ و عظمت کی عظیم تدبیر پر مشتمل ہے اور اس آیت کی حقانیت سورج کی طرح روشن ہے جیسے آج کے دور میں دیکھ لیں کہ جس ملک کے پاس طاقت و قوت اور اسلحہ و جنگی سازوسامان کی کثرت ہے اس کا بدترین دشمن بھی اس پر حملہ کرنے کی جرا?ت نہیں کرتا جبکہ کمزور ملک پر سب مل کر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، جیسے ایک بڑی طاقت اپنا سب سے بڑا دشمن دوسری بڑی طاقتوں کو سمجھتی ہے لیکن آج تک اس پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کی کیونکہ ان کے پاس پہلی کا دماغ ٹھیک کرنے کے نسخے موجود ہیں لیکن وہی بڑی طاقتیں اور عالمی امن کے جھوٹے دعویدار کمزور ممالک کو طاقت دکھانے میں شیر ہیں اور ان ممالک میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اسی آیت پر کچھ عمل کی برکت ہے کہ پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی جسارت کسی کو نہیں ہورہی کیونکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔ اگر مسلمان مل کر اس آیت پر عمل کریں تو کیا مجال کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو تنگ کرسکے۔اور جو ان کے علاوہ ہیں۔} یہاں دوسرے لوگوں سے کون مراد ہیں ان کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد بنو قریظہ کے یہودی ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد فارس کے مجوسی ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد منافقین ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا(ترجمہ) تم انھیں نہیں جانتے کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتے ہیں اور اپنی زبانوں سے ’’ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہْ ‘‘ کہتے ہیں جبکہ اللہ انھیں جانتا ہے کہ وہ منافق ہیں۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں ’’ اس سے مراد کافر جنّات ہیں۔
تفسیر صراط الجنان
(ترجمہ)بیشک اللہ نے خرید لئے۔} اس آیت میں راہ خدا میں جان و مال خرچ کرکے جنت پانے والے ایمان داروں کی ایک مثال بیان کی گئی ہے جس سے کمال لطف و کرم کا اظہار ہوتا ہے کہ پروردگار ِعالَم عَزَّوَجَلَّ نے انہیں جنت عطا فرما ان کے جان و مال کا عوض قرار دیا اور اپنے آپ کو خریدار فرمایا یہ کمال عزت افزائی ہے کہ وہ ہمارا خریدار بنے اور ہم سے خریدے۔ کس چیز کو ؟ وہ جو نہ ہماری بنائی ہوئی ہے اور نہ ہماری پیدا کی ہوئی۔ جان ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی اور مال ہے تو اس کا عطا فرمایا ہوا۔
شان نزول : جب انصار نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شبِ عَقبہ، بیعت کی تو حضرت عبداللہ بن رواحہؐ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لیے اور اپنے لیے کچھ شرط فرما لیجئے جو آپ چاہیں۔ ارشاد فرمایا ’’ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لیے تو یہ شرط کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے لیے یہ کہ جن چیزوں سے تم اپنے جان و مال کو بچاتے اور محفوظ رکھتے ہو اس کو میرے لیے بھی گوارا نہ کرو۔ انھوں نے عرض کیا کہ ’’ ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ ارشاد فرمایا ’’ جنت۔
(ترجمہ)یہ اس کے ذمہ کرم پر سچا وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں سے جو وعدہ فرمایا ہے وہ جس طرح قرآن میں موجود ہے اسی طرح تورات اور انجیل میں بھی تھا۔
انجیل میں بھی مجاہدین کی جزاء کا بیان ہے :
عیسائی شور مچاتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں تو ایسا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اب اگر ایسی آیت نہ بھی ہو تو کیا اعتراض کہ جب قرآن نے یہ فرمایا تھا اس وقت یقیناً موجود تھی ورنہ اس وقت بھی نجران وغیرہ بلکہ خود مدینہ طیبہ کے قرب و جوار میں عیسائی موجود تھے اور قرآن کی آیت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے اور ثانیاً یہ کہ آج کی انجیل میں بغور دیکھیں تو اس مفہوم کی آیات موجود ہیں۔
(ترجمہ)اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے ؟} کیونکہ وعدہ خلافی کرنا معیوب ہے، ہم میں سے کوئی سخی وعدہ خلافی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ جو کہ سب سے بڑا کریم ہے وہ اپنے وعدے کے خلاف کیسے کرسکتا ہے۔ جہاد سے متعلق یہ سب سے بہترین ترغیب ہے۔
(ٹڑضإۃ)خوشیاں مناؤ۔} یعنی تم بے حد خوشیاں مناؤ کیونکہ تم نے فنا ہوجانے والی چیزکو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز کے بدلے میں بیچ دیا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
جنت اور اس کے لیے جان قربان کرنے والوں کی عظمت :
اس آیت مبارکہ میں جنت کی عظمت کا بھی بیان ہے اور جنت کیلئے جان قربان کردینے والوں کی بھی عظمت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (رض) فرماتے ہیں ’’ تمہارے جسموں کی قیمت جنت کے سوا اور کوئی نہیں تو تم اپنے جسموں کو جنت کے بدلے ہی بیچو۔
یہاں جنت کی طلب سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت حکم بن عبدالسلام (رض) سے مروی ہے (کہ جنگ موتہ میں ) جب حضرت جعفر بن ابو طالب (رض) شہید کردیئے گئے تو لوگوں نے بلند آواز سے حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کو پکارا۔ آپ (رض) اس وقت لشکر کی ایک طرف موجود تھے اور تین دن سے آپ (رض) نے کچھ بھی نہ کھایا تھا اور آپ (رض) کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی جسے بھوک کی وجہ سے چو س رہے تھے۔ (جب حضرت جعفربن ابوطالب (رض) کی شہادت کی خبر سنی) تو آپ (رض) نے بے تاب ہو کر ہڈی پھینک دی اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے : اے عبداللہ ! ابھی تک تیرے پاس دْنیَوی چیز موجود ہے ! پھر آپ (رض) بڑی بے جگری سے دشمن پر ٹوٹ پڑے ، اس دوران تلوار کے وار سے آپ (رض) کی انگلی کٹ گئی تو آپ (رض) نے یہ اشعار پڑھے :
تو نے صرف یہ انگلی کٹوائی ہے اور راہ خدا عَزَّوَجَلَّ میں یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ اے نفس ! شہید ہوجا ورنہ موت کا فیصلہ تجھے قتل کرڈالے گا اور تجھے ضرور موت دی جائے گی۔ تو نے جس چیز کی تمنا کی تجھے وہ چیز دی گئی۔ اب اگر تو بھی ان دونوں ( یعنی حضرت زید بن حارث اور حضرت جعفر بن ابوطالب (رض)کی طرح شہید ہوگیا تو کامیاب ہے اور اگر تو نے تاخیر کی تو تحقیق بدبختی تیرا مقدر ہوگی۔
پھر اپنے نفس کو مخاطب کر کے فرمانے لگے : ’’ اے نفس ! تجھے کس چیز کی تمنا ہے ؟ کیا فلاں کی ؟ تو سن ! اسے تین طلاق۔ کیا تجھے فلاں فلاں لونڈی و غلام اور فلاں باغ سے محبت ہے ؟ تو سن ! اپنی یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے چھوڑ دے۔ اے نفس ! تجھے کیا ہوگیا کہ تو جنت کو ناپسند کررہا ہے ؟ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ تجھے اس میں ضرور جانا پڑے گا، اب تیری مرضی چاہے خوش ہو کر جایا مجبور ہو کر۔ جا ! خوش ہو کر جا ! بیشک تو وہاں مطمئن رہے گا، تو پانی کا ایک قطرہ ہی تو ہے ، ( پھر آپ (رض) دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بالآخر لڑتے لڑتے جام شہادت نوش فرماگئے۔
نعمت ملنے پر خوشی کا اظہار کرنا اچھا ہے :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ملنے پر خوشی منانا اچھا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت یا کوئی دوسری بشارت ملے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے جیسے اس آیت میں اس چیز کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے۔