ہم کالا باغ اور دیگر ڈیم بنانے سے کیوں خوفزدہ ؟؟

امیر محمد خان 
 پانی پر دھمکیوں کا علاج یہ ہی تھا
ہمارے پڑوسی ملک کو آج سے نہیں بلکہ 1947ء سے آزمایا جارہا ہے ، وہ تو اپنے اکابرین جیسے جواہر لال نہرو کے اقوام عالم کے فورم میں کشمیر کے متعلق کئے گئے وعدوں سے مکر گیا ، آج اس کے سورما کہتے ہیں کہ نہرو نے اقوام عالم کے سامنے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا بلکہ اسے انگریزوں نے مشورہ دیا تھا کہ کشمیر کے معاملات پر عالمی فورم میں جائو ، نہرو ننھا بچہ تھا وہ چلا گیا ، پڑوسی چاہے ملک کا ہو یا محلے کا اچھے برے ہوتے ہیں ، برے پڑوسی پر نظر رکھنا اچھے پڑوسی کی ذمہ داری ہوتی ہے ، پاکستان ایک اچھا پڑوسی ہے جو امن کی بات کرتا ہے اسکے باوجود کے برا پڑوسی ہر جگہ اچھے پڑوسی پر ’’دائو‘‘لگانے کی کوشش کرتاہے دو قومی نظریے کو پیروں میں روندنے کی کوشش کرتا ہے ، مگر ہماری سیاسی حکومت کوئی بھی ہو یہ مسئلہ عوام کا اور ہماری بہادر افواج کا ہے جو برے پڑوسی کو باز رکھتے ہیںاور کسی دھمکی کو خاطر میں نہیں لاتے ،ہماری سیاسی قیادت اپنے سر سے بلا ٹالنے کیلئے اپنے مفادات کیلئے کبھی کبھی دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں جس سے کشمیریوںکے خون کی توہین ہوتی ہے جو پاکستان کی محبت میں اور اپنی آزادی کیلئے پاکستانی کی سفارتی مدد کی طلب گار رہتے ہیں ، مگر خارجہ محاذ پر ہم وہ کچھ نہیںکرپاتے جس کی ہم سے توقع کی جاتی ہے معیشت آج کی دنیا میں ہر اچھائی اور برائی کا مرکز ہے ہم اپنے مسائل میںپھنس کر معیشت کو درست سمت لی جانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوئے مگر مسلمان ہر دھمکی کا مقابلہ توپ اور بندوق سے نہیں اپنے جذبہ ایمانی سے کرتا ہے جسکے سامنے بڑی سے بڑی طاقت ڈھیر ہوجاتی ہے ، آج انڈس واٹر ٹریٹی کے مسئلے پر ہونے والی ہیرا پھیری اور ہیں دھکمیاں اپنی بہادر افواج اور قیادت کی موجودگی میں پاکستان کے عوام کسی خاطر میں نہیں لا رہے سوشل میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ پاکستان کے عوام ، نوجوان کس طرح دھمکیوںکا مذاق اڑا رہے ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک صف میںہیں یہ ہے محب وطنی ، اپنے اپنے مسئلے اپنی جگہ مگر ملک کی محبت اورحفاظت کا مسئلہ اپنی جگہ جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں، وہ سوشل میڈیا جو کل آج کی عسکری قیادت ، اور حکمرانوں کے خلاف منفی اور مکروۃ قسم کے پروپیگنڈے پر مامور تھا وہ بھی اپنی نفرتیں بھول گیاہے ، پڑوسیوںکا میڈیا فیک نیوز پر چیخ پھاڑ کی آواز میں اسے سچ بتانے کی کوشش کررہا ہے مگر سچ سچ ہوتا ہے ، ا ب تو پڑوسیوںکے اندر سے بھی آواز آرہی ہے کہ فضاء کو خراب کرنے کیلئے جو ڈھونگ رچایا گیا وہ از خود پیدا کردہ مسئلہ ہے، اب ہندو ، مسلمان کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا تو معصوم لوگوںکے قتل کا مسئلہ ہی پاکستان پر ڈال دو، لوگوںکی توجہ تو دوسری جانب جائے گی اقوام عالم کچھ دیر کیلئے غزہ بھول جائے گی ، جعفر ایکسپریس، ہو آج کشمیر جو کچھ ہورہا ہے وہ اقوام عالم کر نظر نہیں آرہا ، الحمداللہ پاکستان کو دیرینہ دوستوںاور خاص طور پربہ حیثیت مسلمان OICممالک اور سعودی عرب جیسے دوست کا ساتھ ہے ،اسوقت بھی ہماری قیادت کے کچھ لوگ امریکہ سے کہہ بیٹھے ہیں کہ پاک و ہند کی فضاء کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادار کریں تو وہاں تو یہ صورتحال ہے کہ پاک بھارت میں کشمیر کا مسئلہ 75 سال پرانا ہے جبکہ امریکہ صدر نے نہ جانے کونسی تاریخ کی بات کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ان دونوںممالک کا یہ مسئلہ 1000سال پرانا ہے یہ اسی طرح ہے جس طرح قائم علی شاہ کہتے ہیں شاہد آفریدی فٹبال کو بہترین کھلاڑی ہے اسے فٹبال میں مزید محنت کرنا چاہئے۔ 
پانی کے مسائل کی بات کریں تو ہم اپنے مسائل کو حل کرنے میں سیاست کو درمیان میں لے آتے ہیں ، اگر اس بات کو تھوڑی دیر کیلئے بھول جائیں کہ پڑوسی ہمارا پانی بند کردے گا ، انڈس واٹر ٹریٹی کا آج ماننے کو تیار نہیں ، وغیرہ وغیرہ ہماری حکومتوں نے چاہے آج کی ہوں یا پہلے کی ملک میں ڈیم بنانے میں کیوںکوتاہی کی ، مجھے یاد ہے میٰں مرحوم مجید نظامی نے ہمیشہ کہا کہ ڈیم بنالو ورنہ پانی سے محروم ہوجائو گے مگر اس مسئلے کو ہم نے سیاسی بنا لیا ، سندھ ، سرحد، مخالف جان سے مارنے کی دھمکیاں ، پنجاب حمایت کرتا رہا جو بھی سیاسی حکومتیں رہیں وہ اپنے اقتدار کیلئے اس مسئلے پر بلیک میلنگ کا شکار ہوتی رہیں ، یہاں تک کہ فوجی حکومتیں ، مارشل لاء￿ کے ادوار میں جو کسی کو جواب دہ نہ تھیں وہ بھی اپنے اقتدار کیلئے ڈیم بنانے کے مسئلے پر چپ سادھے رہیں ، وعدے ہوئے مگر وہ صرف دعوے تھے چونکہ بجٹ میں ڈیم بنانے کا ذکر نہیں ہوتا تھا اگر کالاباغ ڈیم اور دوسرے بڑے ڈیم بنائے جاتے تو انڈس واٹر ٹریٹی (IWT) کی خلاف ورزی یا ہیرا پھیری کی پیش نظر پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوتی۔ کالاباغ ڈیم، بھاشا اور داسو جیسے دیگر کے ساتھ، پاکستان کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرتااس سے اپ اسٹریم کے فوری بہاؤ پر انحصار کم ہوتا، جو موسمی تبدیلیوں یا ہیرا پھیری کا شکار ہوتے ہیں۔ زیادہ ڈیموں کا مطلب ہے آبی وسائل پر بہتر کنٹرول، خاص طور پر خشک سالوں میںمعاونت ملتی اس سے ہندوستان کی طرف سے خاص طور پر مشرقی دریاؤں (راوی، ستلج، بیاس) پر کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا موڑ کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے ، ہم مہنگی بجلی پر روتے ہیں صرف کالاباغ ڈیم سے 3,600 میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنے کا تخمینہ لگایاجاتا ہے مضبوط اندرونی پانی کے بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے، پاکستان کے پاس IWT تنازعات میں زیادہ لچک اور سودے بازی کی طاقت ہوتی لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اندرونی سیاسی اختلافات (خاص طور پر سندھ اور کے پی کے صوبوں سے) نے کالاباغ ڈیم کو روک دیا۔قومی اتفاق رائے کی کمی نے طویل المدتی اسٹریٹجک منصوبہ بندی کو نقصان پہنچایا ہے۔
مختصر یہ کہ گر یہ ڈیم بنائے جاتے تو پاکستان بہت زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوتا۔ اس سے کسی بھی ہندوستانی خطرات یا ماحولیاتی تبدیلیوں کا خطرہ کم ہو جاتا۔پاکستان جہاں زراعت اہم رکن ہے وہاں ہر موسم میٰں ہماری معیشت کو پانی کی سخت ضرورت ہے ، اور ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ہر سال سمندر میںپانی کی ایک بڑی مقدار کھودیتا ہے وہ پانی ضائع ہوجاتا ہے کالاباغ میں 6.1 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا، موسمی سیلاب (خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں) بڑی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ ڈیم دریائے سندھ کے بہاؤ کو کنٹرول کر سکتا تھا اور مون سون سے ہونے والے نقصان کو کم کر سکتا تھا۔وافر بجلی پیدار کرکے توانائی کی دائمی قلت اور لوڈ شیڈنگ کے مسائل سے نجات ہوتی ان سب کے باوجود آج کی شدید بیان بازمیںشائد پڑوس کی قیادت اور عوام میںہیجانی کیفیت ہو پاکستان میں الحمداللہ نہیںپڑوسی مکروہ انداز میں سندھ آبی معاہدے کی قانونی طور پر خلاف ورزی نہیں کر سکتا، لیکن وہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اسے موڑ یا دباؤ ڈال سکتا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات پرزور دیا ہے وہ ادارے جو انڈس واٹر معاہدے کے گواہ ہیں انہیں چاہئے کہ وہ چُپ نہ سادھیں اور اس مسئلے کو حل کریں۔
 

ای پیپر دی نیشن