’’پنشن اصلاحات پر نظرثانی کا مطالبہ‘‘

محمد ریاض اختر
riazakhtar.nw@mail.com
مہنگائی' بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی خاندانی ضروریات کے پیش نظر تنخواہ سے 15 دن کا گزارا ہورہا ہے۔ اگلے دو ہفتے جن مسائل سے گزارے جاتے ہیں ان کا اظہار مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے، روزانہ اجرت کے حامل طبقے کے مصائب سننے اور سنانے کے لیے آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لانا ضروری ہے۔ آل پاکستان واپڈا ہائیڈو الیکٹرک ورکرز یونین (آئیسکو) راولپنڈی کینٹ کے ڈویژنل چیئرمین راجہ کامران سلیم نے صدر آصف علی زرداری' وزیراعظم میاں شہبازشریف اور وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے اپیل کہ وہ تنخواہوں میں فوری اضافہ کریں اور یہ خوشخبری یکم مئی کو سنانا ضروری ہے۔ مزدور رہنما نے کم سے کم اجرت 50 ہزار مقرر کرنیکا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے حکومت کی پنشن اصلاحات پر تنقید بھی کی ،ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں اصلاحات مراعات' سہولیات اور ریلیف کا دوسرا نام سمجھا جاتا ہے وفاقی حکومت کی طرف سے پنشن اصلاحات کی آڑ میں ملازمین کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پنشن اصلاحات آرڈیننس کی رو سے ملازمین اور پنشنرز کی پنشن 70' 75 فیصد کم کرکے 25 فیصد تک محدود کر دی گئی ہے گویا 25 برس ملازمت کرنے والا یا 60 سال کے عمر کے بعد ریٹائرمنٹ کا پروانہ پانے والا اس آرڈیننس کے حساب سے 13 یا 14 لاکھ روپے کا اہل ہوگا۔15 لاکھ میں نیا مکان تو کجا ، دور دراز علاقے میں 5 مرلے کا پلاٹ بھی خریدار نہیں جاسکے گا۔ ملازمت کے اختتام پر ہر کسی کے تین خواب نیا مکان، بچوں کی شادی اور اللہ کے گھر کی زیارت ہوتے ہیں۔ لگتا ہے ان خوابوں کی تعبیر حسرت ہی رہے گی۔مزدور راہنما صدر اور وزیراعظم سے پنشن اصلاحات آرڈیننس واپس لینے اور پرانا نظام بحال کرنے کی درخواست کی۔  نج کاری کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ واپڈا منافع بخش ادارہ ہے سالانہ کارکردگی کی دوڑ میں آئیسکو کا نمبر ون ہے وفاقی حکومت کمپنیوں کو اصل حالت میں بحال کرا دے تو زیادہ منافع کے ساتھ کارکردگی  مزید بہتر ہوسکتی ہے۔طے شدہ عالمی اصول کے مطابق نج کاری ان اداروں کی ہونی چاہیے جو مسلسل خسارے سے'' بوجھ'' بن گئے ہوں۔ منافع بخش اداروں کی پرائیوٹائزیشن سمجھ سے بالا ہے انہوں نے انکشاف کیا کہ 15 برس سے واپڈا میں نئی بھرتیوں کا عمل رکا ہوا ہے، ملازمین بتدریج ریٹائر ہورہے ہیں جن کا بوجھ محدود سٹاف پر پڑھ رہا ہے۔ واپڈا کے ہر سب ڈویژن میں صارفین کی تعداد دو بلکہ تین گنا ہو چکی جس سے کام اور کارکردگی شدید متاثر ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وفاقی وزیر توانائی سردار اویس لغاری نئی بھرتیوں کے لیے انقلابی قدم اٹھائیں۔ واپڈا کے لائن مین بہت زیادہ پریشانی میں ہیں، ملازم جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈیوٹی دے رہے ہیں۔کئی لائن مین دوران ڈیوٹی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں، متاثرہ خاندان رعائیت پانے کے لیے مارا مارا پھرتا ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ حکومت فوری لائف انشورس سکیم بحال کرکے ملازمین کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ملازمین کے بچوں کی تعلیم ' صحت اور ٹرانسپورٹ کے لیے خاطر خواہ رقم کا بندوبست انکا حق ہے وزارت پانی وبجلی کو اس طرف بھی توجہ دینا چاہیئے۔ یوم مزدور کے حوالے سے بتایا کہ  یوم مئی جن حالات میں منا رہے ہیں وہاں مزدور کسان راج کا نعرہ تو ہے مگر24کروڑ آبادی کے ملک میں مزدوروں کی تعدادکروڑوں میں ہے لیکن ان میں صرف3فیصد محنت کش منظم ہیں.سوشل سیکورٹی کے ادارے لیبرقوانین کے مطابق علاج کی سہولت، ڈیتھ گرانٹ اور میرج گرانٹ اور اسکالرشپ کی سہولیات 3فیصد محنت کشوں کو مل رہی ہیں مگر سرکاری اداروں کی غفلت کی وجہ سے ان سہولیات کو حاصل کرنے کے لئے ٹریڈ یونینز کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔مزدوروں کے علاج کیلئے اسپتالوں کی تعداد کم، غیرمعیاری ادویات، ڈیتھ گرانٹ، اسکالرشپ اور میرج گرانٹ کے کیس کئی سالوں سے گرانٹ نہ ملنے کی وجہ سے محنت کشوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رہی بات یونین سازی کی جس کا حق پاکستان کا آئین اور آئی ایل او کے کنوینشن87 اور98 بھی دیتے ہیں۔مزدوروں کے تحفظ کیلئے بنائے گئے۔ مزدوروں کو EOBI کے تحت پڑھاپے کی پنشن ملنے میں جو دشواریاں اور پیچیدگیاںہیں اس سے یہ ریٹائرڈ بزرگ ادارے کی30 سال خدمت کے بعد کم پنشن وصول کررہے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے اورانہیں علاج معالجہ کی سہولت بھی نہیں۔
وہ ریٹائرڈ مزدور جو عمر کے قیمتی سال اداروں کو اپنی خدمات پیش کیں انکے صلہ میں انہیں کم از کم سوشل سیکورٹی اور فری ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائیں۔شکاگو کے محنت کشوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑا اور اپنے اوپر ہونے والے جبر کے خاتمہ کیلئے جو فقید المثال جدوجہد کی وہ تا ابد تک یاد رہے گی۔ آئیں ہم سب شکاگو کے شہدا سے تجدید عہد کریں کہ ہم متحدہ جدوجہد سے اپنے مسائل کو حل کرائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن