نیٹو کا زوال اور عالمی سیاست پر اسکے اثرات

دوسری عالمی جنگ کے بعد جب یورپ کے بیشتر ممالک جنگ کی تباہی کا شکار ہو کر کمزور پڑھ چکے تھے۔امریکہ نے برطانیہ، فرانس، کینیڈا،بلجیم، ڈنمارک، آئس لینڈ، اٹلی، ناروے، پرتگال، چیک رپبلک، ہنگری، پولینڈ، لگزمبرگ، نیدر لینڈ، ناروے کیساتھ ملکر 4اپریل 1949 کو نیٹو اتحاد کی بنیاد رکھی جسکا مقصد یورپ کے تمام ممالک کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔واشنگٹن ڈی۔سی میں منعقدہ نیٹو اجلاس میں ممبر ممالک کے درمیان یہ طے پایا کہ کسی ایک ممبر ملک کیخلاف حملہ تمام ممبر ممالک کیخلاف حملہ تصور کیا جائیگا۔ ابتدائی طور پر نیٹو کا فوجی اتحاد ایک دفاعی اتحاد تھا تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نیٹو کا اتحاد آنیوالے برسوں میں ایک حملہ آور کا کردار ادا کرتا نظر آیا۔ سرد جنگ میں سویت یونین کیخلاف جنگ میں نیٹو نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ کمیونزم کے پھیلاو کو روکنے کیل۔ نیٹو نے اسلامی ممالک کیساتھ روابط قائم کرکے مشترکہ بیانیہ بنایا جو سوویت یونین کی شکست کی وجہ بنا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد نیٹو کی پالیسی میں واضع شفٹ دیکھا جاسکتا ہے۔اس پالیسی شفٹ کا شکار بیشتر مسلم ممالک ہوئے۔1991 میں نیٹو نے گلف وار میں شامل ہوکر صدام حسین کو عراق سے نکلنے پر مجبور کیا۔ 1992 میں یوگو سلاویہ، کسووو، بوزنیا ہرذوگوینیا میں نیٹو کے ہاتھوں مسلم کمیونٹی متاثر ہوئی۔ 
9/11 کے بعد افغانستان اور عراق کی تباہی میں نیٹو کے بیشتر ممالک شریک کار رہے ۔
 نیٹو کی گذشتہ 75 برس کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جا۔ تو آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ نیٹو نے عالمی سیاست کے اتار چڑھاو میں اہم کردار ادا کیا ہے تاہم روس یوکرائین جنگ کے دوران نیٹو کے اتحاد کا شیرازہ بکھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اتحاد میں شامل بیشتر ممبر ممالک امریکہ سے ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں جن میں فرانس اور جرمنی سر فہرست ہیں دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی فرانس کو صاف صاف کہ دیا ہے کہ امریکہ فرانس ،جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کو تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ یورپی ممالک روس کی جانب سے یوکرائن کے تقریبا 20 فیصد علاقے پر قبضہ پر خاصے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔یورپی ملکوں کے پریشان ہونے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یورپ امریکہ کے بغیر خود کو بے آسرا محسوس کرتا ہے۔ یورپ کے مقابلے میں روس ایک طاقتور ملک ہے جس سے تحفظ کیلئے یورپی ممالک کو خطیر رقم اپنے دفاع پر خرچ کرنا پڑے گی۔یوکرائن کے مسلہ کو ہی دیکھ لیں یوکرائن میں اگر یورپ نے 100 بلین ڈالر خرچ کیئے ہیں تو تنہا امریکہ نے 300 بلین ڈالر خرچ کی۔ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے واشگاف الفاظ میں یہ کہ دیا ہے کہ یورپی ممالک اپنی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھائیں امریکہ انکی حفاظت کی مذید ذمہ داری قبول نہیں کرسکتا۔ حالیہ روس یوکرائن جنگ میں یوکرائن کے لیڈر ذیلنسکی کو بھی امریکہ نے صاف ہاتھ دکھا دیا ہے۔ شائد ذیلنسکی کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ روس کسی صورت یہ گوارہ نہیں کرے گا کہ نیٹو روس کے بارڈر پر آکرروس کو تنگ کرنے کی پوزیشن میں آجائے۔ 
نیٹو اتحاد بکھرنے کے بعد یورپی ملکوں میں فرانس اور جرمنی کا کردار سب سے اہم ہوگیا ہے فرانس کے صدر میکرون اور جرمنی کے لیڈر میرز چاہتے ہیں کہ ٹرمپ یوکرائن کے معاملے پر اپنی پہلی پوزیشن پر واپس آجا۔ جسکا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں ارہا کیونکہ امریکہ کی گرتی ہوئی معیشت کو سامنیرکھتے ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو جنگوں سے باہر نکالنا چاہتاہے۔ اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا سارا زور ٹیرف پالیسی کو لاگو کرنے پر ہے ۔ یہ بات بھی باعث دلچسپ ہے کہ امریکہ نے ماضی میں اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیل۔ ٹیرف پالیسی پر انحصار کیا ہے۔اٹھارویں صدی عیسوی میں امریکی معیشت کا 90 فیصد انحصار ٹیرف پر تھا جبکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں یہ انحصار کم ہوکر 50 فیصد رہ گیا تھا ٹرمپ دوبارہ یہ چاہتا ہے کہ ٹیرف کے ذریعے امریکی معیشت کو بہتر بنا۔ جہاں امپورٹ ڈیوٹی نافذ کر کے آپ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکتے ہیں.
نیٹو اتحاد بکھرنیاور زوال کا شکار ہونے کیباعث گلوبل لینڈ سکیپ میں بھی واضع تبدیلی آرہی ہے۔ برازیل، سعودی عرب ،ترکی ،جنوبی افریقہ، میکسیکو حتی کہ بھارت بھی امریکی اثرورسوخ سے باہر نکل رہا ہے۔ عالمی سیاست میں تبدیلی کے پیش نظر ہمیں۔بھی خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ آخر نیٹو زوال کا شکار کیوں ہوا ؟ جواب بڑا سادہ ہے۔ نیٹو کا قیام بنیادی طور پرسوویت یونین سے ابھرتے ہوئے کمیونزم کے پھیلائو کو روکنا تھا کیونکہ امریکہ کو خطرہ تھا کہ سوویت یونین چونکہ بڑا ملک ہے جو یورپ کے بیشتر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔نیٹو کو امریکہ کی جانب سے سب سے زیادہ فنڈنگ کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی تاہم آج کی دنیا بدل چکی ہے۔روس خود سرمایہ داری کی طرف جا چکا ہے۔ٹرمپ پیوٹن کیساتھ صلح کر چکا ہے اس صلح کے بعد ٹرمپ کا اگلا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ یورپ اور برطانیہ کی حفاظت پر معمور دس ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیاجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ عالمی سیاست میں ایک بڑا شفٹ ہوگا جسکا واضع پیغام یہ ہو سکتاہے کہ امریکہ دنیا بھر میں جو رقم دوسرے ملکوں کی سیکورٹی پر خرچ کر رہا ہے۔ امریکہ نے اس رقم سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ امریکہ کے اس ممکنہ اقدام کے بعد جنوبی ایشیا میں فلپائن ،تائیوان،اور جنوبی کوریا سب کو یہ فکر لاحق ہوسکتی ہے کہ امریکہ نے ہمارے سروں سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور چین کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔ چین کو فری ہینڈ دینیکا مطلب چین کی عالمی سیاست میں بالا دستی تسلیم کرنا ہے۔
چین اور برکس ممالک کے حوالہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کے گذشتہ چار ماہ کے بیانات کا جائزہ لیں تو اس میں بھی شفٹ آیا ہے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ جس طرح برکس ممالک کو دھمکیاں دے رہا تھا۔ اب ان دھمکیوں سے بھی دستبردار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ نیٹو کے زوال کے بعد عالمی سیاست ملٹی پولر ورلڈ میں داخل ہورہی ہے جہاں امریکہ ،روس اور چین باہم ملکر دنیا پر راج کر سکتے ہیں۔

اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ… سفیر حق

ای پیپر دی نیشن