کیا امریکی بادشاہت کا سورج غروب ہورہا ہے؟

ہم اپنے گذشتہ کالم بعنوان ’’برکس کا متبادل معاشی نظام ،امریکہ اور پاکستان‘‘ پر بات کرتے ہوئے حکومت کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ ،’’قومی سلامتی کا تقاضہ ہے کہ پاکستان اپنی معیشت کے اشاریے بہتر بنانے کی خاطر برکس بلاک کا حصہ بنے جس کے اندر ملٹی پولر ورلڈ کو پیدا کرنے کی بھر پور صلاحیت ہے۔ برکس بلاک میں شمولیت اختیار کرکے ہمیں معاشی آزادی مل سکتی ہے‘‘
11 جنوری سے اب تک فقط تین ہفتوں کے دوران رونما ہونے والی عالمی سیاسی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے تو سیاست کے میدان کا ایک ادنی سا طالب علم بھی باآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ آنے والے ماہ و سال میں دنیا کے اکثر بالخصوص مشرقی ممالک امریکی بلاک سے باہر نکل کر برکس کے متبادل بلاک کی طرف شفٹ کر سکتے ہیں۔برکس ممالک اس وقت دنیا کی آبادی کے 55 فی صد حصہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ برکس بلاک کے بانی ارکان برازیل، روس، چین، بھارت اور سائوتھ افریقہ کیساتھ اب اس بلاک میں انڈونیشیا‘ مصر، ایتھوپیا، ایران، متحدہ عرب امارات،بیلاروس ،بولوییا، قازقستان، کیوبا، ملائشیا، تھائی لینڈ‘ یوگنڈا شامل ہو چکے ہیں جبکہ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں سعودی عرب، ویتنام، نائجیریا،ترکی اور ارجنٹینا برکس بلاک کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ اس وقت اقوام متحدہ میں کل 193 ممالک ہیں جن میں 130 ممبر ممالک کی تجارت چین کیساتھ ہے۔ اگر یہ 130 ممالک برکس بلاک کا حصہ۔ بن جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اقوام متحدہ کے متبادل برکس کا عالمی نظام قائم ہونے کے واضع امکانات موجود ہیں۔
.تاریخی اعتبار سے دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ مختلف ملکوں کے درمیان ٹکراو تجارت کے ایشو پر ہی رہا ہے۔ دنیا پر قبضے کی وجوہات کے پیچھے کارفرما عمل بھی تجارت ہی رہا ہے۔ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی تجارتی غرض سے ہی برصغیر پاک و ہند پر اپنا تسلط قائم کیا تھا۔ آج اگر پوری دنیا کے اندر امریکہ کے 800 سے ذائد ملٹری بیسز موجود ہیں تو اس کی وجہ بھی امریکی تجارت اور مفادات کو محفوظ بنانا ہے۔ گویا امریکی بالادستی کا سکہ دنیا میں بین الاقوامی تجارتی لین دین کا مرہون منت ہے جو وہ ڈالر کے ذریعے کرتا ہے۔امریکی نیو ورلڈ آرڈر اگرچہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد 1990ء  میں سامنے آیا تاہم امریکہ کی معیشت و سیاست کے میدان میں عالمی بالادستی کاآغاز دوسری جنگ عظیم کے بعد برٹن ووڈ کانفرنس سے ہی ہو چکا تھا جب امریکہ نے جنگ سے تباہ حال ملکوں کی مدد کرنے کی غرض سے عالمی تجارت کے لیئے امریکی ڈالر کو بطور کرنسی متعارف کروا دیا تھا جس کے عملی نفاذ کیلئے ٹرومین ڈاکٹرائین سامنے آئی جسکے۔بعد اکنامک ریکوری ایکٹ 1948ء پاس ہوا۔ مارشل پلان کے تحت یورپ کے ملک امریکہ کے مزید قریب آگئے۔ مارشل پلان کو امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جارج مارشل کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مارشل پلان کی بدولت ہی 1954ء میں فرانس۔ برطانیہ، نیدر لینڈ، بلجیم، لگزمبرگ، اٹلی اور جرمنی پر مشتمل یورپی یونین کا قیام عمل میں آیا جودرحقیقت امریکہ کی سیاسی و معاشی میدان میں برتری کا ہی اظہار تھے۔ جس کے بعد امریکہ گلوبل لیڈر کے طور پر ابھر چکا تھا۔ 
جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا تب کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں کرتا تھا کہ امریکہ سوویت یونین کو شکست سے دوچار کر سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آج امریکہ اور چین کی سرد جنگ میں یہ کہنا مشکل ہے کہ چین امریکہ کو شکست دل دیسکتا ہے۔
 تاہم امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دی باوجود اسکے کہ سوویت یونین معیشت ،وسائل اور رقبہ کے اعتبار سے ایک بڑا ملک تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد دنیا پر امریکی بادشاہت کا سورج پوری آب و تاب کیساتھ چمکنے لگا۔ تاہم 2010ء میں اس سورج کو اس وقت گرہن لگنا شروع ہواجب برکس تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور ڈالر کی بالادستی کے متاثرین ممالک نے بین الاقوامی تجارت کے لیئے ڈالر کے متبادل معاشی نظام کی راہ تلاش کرنا شروع کی۔ سال 2020ء  تک ڈالر کیخلاف محاذ آرائی کا آغاز ہوچکا تھا جس کے بعد سال 2022ء میں برکس بلاک کی جانب سے ڈی۔ ڈالرائزیشن کی کمپین کا آغاز ہوگیا جس نے امریکی ڈالر کو شدید متاثر کیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار سنبھالتے ہی امریکہ کی سیاسی و معاشی بالا دستی کو قائم رکھنے کے لیئے تمام درآمدی اشیا پر 10 سے 20 فیصد ٹیرف لگانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ چین کیخلاف 60 فی صد تک ٹیرف لگانے کی دھمکی دی ہے۔  تاہم ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ٹیرف کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ ہم اپنے 11 جنوری کے کالم میں پہلے ہی اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر ٹرمپ نے ٹیرف لگانے کی غلطی کی تو ایسی صورت میں امریکہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔مشہور مثل ہے کہ ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ ٹرمپ انتظامیہ کے ٹیرف لگانے کے فیصلہ کیخلاف کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ کینیڈا کیخلاف ٹیرف لگانے سے باز و ممنوع رہے کیونکہ ٹیرف سے کینیڈا کی معیشت اور کاروبار بدترین حد تک متاثر ہوسکتے ہیں۔گرین لینڈ کے ایشو پر ڈنمارک نے امریکہ سے سخت احتجاج کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ وہ گرین لینڈ پر قبضہ کرنے سے باز و ممنوع رہے۔ ٹرمپ کی برکس ممالک کو دی جانے والی دھمکی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی بلکہ شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ برکس ممالک نے بھی کمر کس لی ہے۔ گزشتہ دنوں برکس بلاک کے اہم پلیئر چین نے مصنوعی ذہانت کی ایپ ڈیپ سیک متعارف کروا تے ہوئے امریکہ کی سلی کان ویلی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
گویاعالمی سیاسی و معاشی اجارہ داری کے اصول و ضوابط تبدیل ہورہے ہیں۔ سال 2000ء میں امریکی معیشت چینی معیشت سے 8 گنا بڑی معیشت تھی جبکہ اس وقت یہ فرق صرف 1.5 گنا رہ گیا ہے۔ایک رپورٹ کیمطابق 2035ء تک چینی معیشت امریکی معیشت سے آگے نکل جائیگی۔ بدلتی دنیا میں بہت سارے سوالات جنم۔لے رہے ہیں جس میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا 1945ء  میں طلوع ہونے والا امریکی بادشاہت کاسورج غروب ہونے جارہا ہے؟ اگر ڈالر برکس بلاک کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو جاتاہے تو آپ 21ویں صدی کو چین کی صدی کہہ سکتے ہیں کیونکہ برکس بلاک میں چین ہی لیڈنگ پلئیر ہے۔

اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ… سفیر حق

ای پیپر دی نیشن