ڈیجیٹل میڈیا پر بیانیے کی جنگ: تجاویز اور حکمت عملی

پاکستان کی حالیہ تاریخ میں جعفر ایکسپریس کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ یہ اْس سلسلے کی کڑی ہے جو 1979 کے بعد سے خطے میں جاری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اِس جنگ کی نوعیت کو سمجھ لیا ہے؟ کیا ہم جان پائے ہیں کہ دہشت گردی کی یہ نئی لہر صرف بم اور بندوق سے نہیں، بلکہ جھوٹے بیانیوں، ڈیپ فیک ویڈیوز اور نفسیاتی حربوں سے بھی لڑی جا رہی ہے؟
جعفر ایکسپریس کے حملہ آوروں کو بے نقاب کیلئے ملک کی سول اور عسکری قیادت کا عہد دراصل اْس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ ہمارے دشمن صرف وہ نہیں جو سرحدوں کے پار بیٹھے ہیں، بلکہ وہ بھی ہیں جو ہماری صفوں میں گھسے ہوئے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں، قوم کو تقسیم کرتے ہیں، اور دہشت گردی کو ’’مزاحمت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اِن کی شناخت کرنا اور اِنہیں بے نقاب کرنا اْس جراحی کی مانند ہے جو بدن کے اندر کے کیڑے نکالتی ہے۔ مگر یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام، اپنے میڈیا اور اپنے قومی بیانیے کو اِس جنگ کیلئے تیار نہیں کرتے۔
سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کا سدباب کرنا سول اور عسکری قیادت کا ایک اہم فیصلہ ہے۔ آج کی جنگ کا سب سے خطرناک ہتھیار ڈیپ فیک ویڈیوز، جعلی اکاؤنٹس اور پراپیگنڈے کی فیکٹریاں ہیں۔ بھارت کی’’ایجنسیاں‘‘ ہمارے خلاف اِسی ہتھیار کو استعمال کر رہی ہیں۔ وزیراعظم کا یہ فیصلہ کہ ڈیپ فیک مواد کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ دراصل اْس جدید جنگ کا اعلان ہے جس میں ہماری نسل کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس اِس جنگ کیلئے وسائل، صلاحیتیں اور عزم موجود ہے؟فلموں اور ڈراموں کے ذریعے قومی بیانیہ پھیلانے کا فیصلہ یقینا ایک اہم اقدام ہے۔ ترکی نے اپنے ڈراموں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی ثقافت کو پھیلایا ہے، ہم کیوں ایسا نہیں کرسکتے؟ ہماری تاریخ میں ایسے کتنے ہی واقعات ہیں جو فلموں کی شکل میں نوجوانوں کے دل میں اترسکتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ ڈیجیٹل میڈیا کی جنگ محض الفاظ کی جنگ نہیں، بلکہ یہ عوامی ذہنوں پر قبضے کی جنگ ہے۔ جعلی خبریں، ڈیپ فیک ویڈیوز اور منظم پراپیگنڈا اِس جنگ کے اہم ہتھیار ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کیلئے یہ جنگ خاصی پیچیدہ ہوسکتی ہے، کیونکہ بیرونی طاقتیں ہماری معاشرتی کمزوریوں کو ہدف بناتی ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر بیانیئے کی جنگ میں کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے، بطور ڈیجیٹل میڈیا اسٹریٹیجسٹ اس حوالے سے کچھ تجاویز پیش کررہی ہوں۔
سچائی کو ہتھیار بناکر حقائق کی تیز ترین ترسیل کا نظام بنایا جائے۔
سب سے پہلے دشمن کے جھوٹے بیانیوں کا فوری جواب دینے کیلئے ایک ’’ڈیجیٹل ریپڈ رسپانس ٹیم‘‘ بنائی جائے، جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ ہوتی ہوئی جعلی خبروں کی سچائی (فیکٹ) چیک کرے اور ان کا تدارک کرے۔ قومی بیانیے کو پھیلانے کیلئے معتبر سماجی شخصیات (انفلوئنسرز)، دانشوروں اور یوٹیوبرز کو شامل کیا جائے۔ مثال کے طور پر ترکی نے ’’ڈیجیٹل فوج‘‘ تشکیل دی ہے جو سوشل میڈیا پر ترکی مخالف مواد کا جواب دیتی ہے۔
ڈیجیٹل خواندگی کو عام کرکے عوام کو ہوشیار بنایا جائے۔
پرائمری سطح سے ہی بچوں کو سکھایا جائے کہ جعلی خبروں، ڈیپ فیک ویڈیوز اور پراپیگنڈے کو کیسے پہچانا جائے؟ "فیک نیوز کو نہ کریں شیئر" جیسی کمپینز چلائی جائیں، جہاں عوام کو بتایا جائے کہ کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق ضروری ہے۔
 اے آئی ٹیکنالوجی کو دوست بناکر ڈیٹا اینالیٹکس سے مدد لی جائے۔
مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے جعلی ویڈیوز، آڈیوز اور تصاویر کا پتہ لگانے والے سافٹ ویئر تیار کیے جائیں۔ مثال کے طور پر ’’فوٹو فورینزک ٹولز‘‘  تصاویر میں ہیرا پھیری کو فوری شناخت کرسکتے ہیں۔ ڈیٹا اینالیٹکس کے ذریعے دشمن کے ٹرینڈز کو ٹریک کیا جائے اور ان کے بیانیوں کا پیشگی اندازہ لگا کر جوابی حکمت عملی تیار کی جائے۔
قانونی فریم ورک اور جعلی خبروں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔
سوشل میڈیا پر جان بوجھ کر جھوٹی معلومات شیئر کرنے والوں کے خلاف سزائیں مقرر کی جائیں۔ سنگاپور نے ’’پروبیشن آف آن لائن فالس ہوڈز ایکٹ‘‘  نافذ کیا ہے، جو ایک مثال ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز کو پابند کیا جائے کہ وہ پاکستان مخالف مواد کو فوری ہٹائیں۔
متبادل بیانیہ تخلیق کرکے مثبت مواد تیار کیا جائے۔
نوجوانوں کو قومی ہیروز کی کہانیاں سنانے کے لیے دلچسپ اور معیاری مواد تیار کیا جائے۔ پاکستان کی تاریخ اور ثقافت کو گیمز اور اینیمیشنز کے ذریعے نئی نسل تک پہنچایا جائے۔ ’’پاکستان ہیروز‘‘ نامی موبائل گیم نوجوانوں کو آزادی کی جدوجہد سے جوڑ سکتی ہے۔
بین الاقوامی اتحاد بناکر گلوبل نیٹ ورک تیار کیا جائے۔
چین، ترکی اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ ڈیجیٹل جنگ کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف عالمی معاہدے کی وکالت کی جائے۔ 
عوامی شرکت کو لازمی سمجھ کر ہر شہری کو پاکستان کا ڈیجیٹل سپاہی بنایا جائے۔
عام شہریوں کو تربیت دی جائے کہ وہ اپنے علاقے کی مثبت کہانیاں ریکارڈ کریں اور سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ پاکستان کے حق میں مختلف ہیش ٹیگ ٹرینڈ کروا کر عوامی جذبات کو یکجا کیا جائے۔
نفسیاتی جنگ کا مقابلہ کرنے کیلئے مائنڈ گیمز کو سمجھیں۔
دشمن کے پراپیگنڈے میں استعمال ہونے والے الفاظ، تصاویر اور جذباتی اپیلز کا تجزیہ کریں اور ان کا توڑ تیار کریں۔ دشمن کے بیانیوں کا مذاق اڑانے والے میمز بنائیں۔ مثال کے طور پر بھارتی پراپیگنڈے کے جواب میں "میں پاکستانی ہوں، مجھے فخر ہے" والے میمز وائرل کریں۔
نئی ٹیکنالوجیز سے مستقل ہم آہنگ رہا جائے۔
خبروں کی تصدیق کیلئے بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے، تاکہ معلومات میں ردوبدل نہ ہوسکے۔ مستقبل کے ڈیجیٹل میدان "میٹا ورس" میں پاکستان کا مثبت بیانیہ متعارف کرانے کے لیے ورچوئل ایونٹس اور نمائشیں منعقد کی جائیں۔
اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے آگے بڑھیں۔
بیانیئے کی جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرے اور انہیں دور کرے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی واقعہ ہوا ہے تو اسے چھپانے کی بجائے شفافیت سے نمٹیں، تاکہ دشمن کو غلط بیانی کا موقع نہ ملے۔
یاد رکھیں کہ ڈیجیٹل میڈیا کی جنگ میں کامیابی کا راز ’’تخلیقی سوچ‘‘، ’’تیز ترین ردعمل‘‘ اور ’’عوامی اعتماد‘‘ میں پنہاں ہے۔ ہمیں نہ صرف دشمن کے بیانیوں کا توڑ کرنا ہے، بلکہ ایک ایسا مثبت بیانیہ بھی تخلیق کرنا ہے جو نوجوانوں کے دلوں میں اتر جائے۔ یاد رکھیں، یہ جنگ ہماری شناخت، ہماری تاریخ، اور ہمارے مستقبل کے لیے ہے۔ اگر ہم آج ٹیکنالوجی، تعلیم اور عوامی تعاون کو ہتھیار بنالیں تو کل آنے والی نسلیں ہمیں ضرور یاد رکھیں گی۔

ای پیپر دی نیشن