جذبہ حب الوطنی اور بہادری سے دہشت گردوں کے حملوں کو چیلنج کرنا اور انہیں جانی ومالی نقصان پہنچانا اپنے حوصلوں اور جذبوں کو بلند رکھنا یہ عساکرپاکستان ہی کا خاصہ ہے دہشتگردی کے عفریت سے نبردآزما قومیں ہمیشہ سپہ سالارانہ جذبات سے مزین رہتی ہیں دراصل دہشت گردی قتل عام کے ذریعے تخریب کاری جیسی بربریت کا نام ہے۔افواہیں پھیلاکرسیاسی مقاصد کیلئے عوام کو استعمال کرنا اور کھڑی اور پائیدار حکومت کے اختیارات کو پامال کرنے کی کوشش کرنا۔ قرآن پاک میں سورۃ توبہ کی73آیت کا ترجمہ ہے کہ’’اے نبی جہاد کروکفار اورمنافقوں سے اور ان کے ساتھ سختی کرو‘‘ دہشتگرد جو نعرہ لگاتے ہیں اللہ اکبرکانسلیں تباہ کرتے ہیں مسلمانوں کی ان سے بڑامنافق کون ہے؟حقیقت یہ ہے کہ لڑائی میں ان کا سامناکرنا اور مقابلے میں ان کو سخت سزا دینا عین جہاد ہے۔
قوموں کویہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسانیت کے استحکام کومتزلزل کرنے والی تباہ کن سرگرمیوں کا مقابلہ ہمیشہ باہمی تعاون اور اتحاد سے کیاجاتاہے۔ہرملک کے مذہبی،سیاسی اور بین الاقوامی تنظیموں کو انتہاپسندوں کی کسی بھی قسم کی معاونت کرنیوالے ممالک کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی جھول نہیں رکھنا چاہیے۔
اسلام ایک پرامن مذہب ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ نبی اکرم نے جتنی بھی لڑائیاں لڑیں وہ سب اپنے دفاع میں لڑیں یا ان لوگوں کے خلاف لڑیں جو اسلام کے خلاف سازشیں کررہے تھے اور حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے مگر نبی وصلعم نے دلیل اور تبلیغ کا ہمیشہ پرامن راستہ اپنایا ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت ہے کہ’’جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘
طالبان کی بڑھتی ہوئی دہشتگردی پہ ہمارے آرمی چیف عاصم منیر کا کہنا ہے کہ’’پاکستان کے معاملات میں مداخلت کا سخت ترین جواب دیاجائے گا‘‘
علاقائی سالمیت کے تحفظ کیلئے ہماری افواج کا سپہ سالار کایہ بیان ہم سب کے عزم واستقلال اور اتحاد کو تقویت دیتاہے۔ہماری افغانستان کے ساتھ پیچیدگیوں کا سلسلہ بڑا طویل ہے۔
ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی کوشش پاکستان کی ترجیحات میں شامل رہاہے کیونکہ یہی تعلقات خطے میں امن اور ثقافتی تبادلوں کے ساتھ ساتھ تجارت کو بھی عروج دیتے ہیں مگر باوجود کوشش کے افغانستان کے ساتھ تعلقات پیچیدہ ہی رہے۔ 1947ء میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی افغانستان ہی وہ ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی بھرپور مخالفت کی۔ (ڈیورنڈلائن) کوماننے سے انکارکیا۔(پشتونستان) کا دعویٰ کیا، پشتونوں کو ریاست کے خلاف اکسانے کی کوشش بھی کی۔ ان عناصرکی ہرممکن کوشش کی اور اب بھی جاری ہے جو پاکستان کے دشمن ہیں۔یہ کشیدگی اور عدم استحکام کا شکار تعلقات مستقبل قریب میں توکہیں سلجھتے اورپرامن معاملات کے قرطاس پہ لکھے نظرنہیں آتے۔ ایک عجیب سی سرد جنگ جاری ہے جو تعلقات کو مزید خرابی کی طرف لے جارہی ہے ہمیں طالبان کی حمایت کا خمیازہ بھگتنا پڑرہاہے، نائن الیون کے بعد پاکستان کو دہشتگردی میں دھکیلنے کیلئے جو منصوبہ بنایاگیا اس میں امریکہ کامیاب ہوگیا۔ بھارت نے اس موقع کا پورا فائدہ اٹھایا اور چالاک لومڑی کی طرح پاکستان کے خالف سازشوں کا سلسلہ تیزکردیا۔ پاکستان کو چیلنجز کاسامنا ایک تواترکے ساتھ کرناپڑرہاہے۔
کیا کوئی اندازہ لگاسکتاہے کہ ہماری قوم نے دہشت گردی کے مقابلوں میں کتنی جانیں قربان کیں ہیں۔ یہاں تک کہ بوڑھے،عورتیں اور بچے بھی لاتعداد شہید ہوئے مگرکیا ہماری قوم کا جذبہ ماند پڑا۔نہیں بلکہ اب توہرماں ہرباپ یہ کہتاہے کہ ایک قربان ہوا تو قومیں بھی قربان کردینگے مگر وطن پہ آنچ نہ آنے دینگے اس بات سے ہمارے دشمن خود ہی اندازہ لگالیں کہ پاکستانی قوم کو شکست دیناکیوں ناممکن ہے، کہ ہم لوگ موت کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں۔ سیکورٹی کے خدشات کے چیلنجز نے پاکستان کے مسائل میں اضافے کی سنگین حدود بھی اکثرپارکی ہیں۔
بظاہر یہ لگتا تھاکہ2021ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد مسائل حل کی طرف خود بخود راستہ نکال لیں گے مگریہ تب ممکن ہوتانظرآتاجب پاکستان کے نام نہاد دشمن درمیان سے نکل جاتے بلکہ اس کے بعد توسرحدی تنازعات میں اضافے کے باعث دشمنی اور بھی کھل کر سامنے آگئی۔
نظریاتی تصادم نے ہمیشہ خون خرابہ ہی کیاہے اور دہشت گردی کے فروغ میں اس تصادم نے اہم کردار ادا کیا ہے یہ یاد رکھیں کہ جہاں حکومتی سطح پر تعلقات میں بگاڑ ہوگا وہاں عوامی سطح پہ یہ کشیدگی نفرت کی حدوں کو چھولے گی جبکہ یہ بھی سچ ہے کہ معاشی طور پہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کیلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ تنازعات جن کامقصدبھی سب کی معیشت پہ شدیدمنفی اثرات ثبت کررہے ہیں۔
غلط فہمیاں،بدگمانیاں اورغیرتحقیقی اندازوں واندیشوں کی بنیاد پہ کبھی تعلقات استوار نہیں ہونے چاہیے وہ ملکی سطح کے ہوں معاشرتی سطح کے یا بے شک خاندانی سطح کے۔ذہنی ہم آہنگی کیلئے ثقافت، معیشت،مذہب،انسانیت اور تجارت کو اگربنیاد بنالیاجائے اور حقوق کی ادائیگی کی پاسداری کا حلف اٹھالیاجائے تو روابط مستحکم ہوسکتے ہیں، دہشت گردی میں استعمال ہونے والے ذرائع کوملکی خوشحالی پہ استعمال کیاجائے تو کوئی شک نہیں کہ ترقی کی منزلیں خود ہمارے سامنے آکھڑی ہونگی۔مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہوگا؟