بیسویں صدی کے آغاز میں سلطنت برطانیہ اگرچہ وسعت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی جسکی حکومت دنیا کے پانچ براعظموں پر موجود تھی تاہم اسی عرصہ کے دوران برطانوی عالمی طاقت آہستہ آہستہ امریکی عالمی طاقت میں تبدیل ہونا شروع ہو چکی تھی۔ پہلی جنگ عظیم 1914ئ میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں برطانیہ‘ فرانس‘ روس‘ اٹلی اور جاپان کیساتھ ملکر ‘ مرکزی طاقتوں جرمنی‘ آسٹریا‘ ہنگری اور ترکی کیخلاف جنگ میں اہم رول ادا کیا۔ اس جنگ میں 85 لاکھ فوجی مارے گئے، 21 لاکھ سے زائد زخمی ہوئے جبکہ ایک کروڑ تیس لاکھ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ امریکی عالمی طاقت کا نقطہ آغاز تھا تاہم امریکی عالمی طاقت کا عالمی سیاسی اجارہ داری میں بدلنے کا باقاعدہ اعلان اس وقت ہوا جب چھ اگست 1945 کو صبح کے پونے نو بجے امریکی ہوائی جہازوں نے جاپان کے شہر ہیروشیما میں ایٹم بم گرایا جس کے نتیجہ میں 80 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ امریکی صدر ٹرومین نے بڑے فخریہ انداز میں وائٹ ہاو¿س میں اعلان کیا کہ دنیا کا پہلا ایٹم بم ایک امریکی ہوائی جہاز نے ہیروشیما پر گرایا ہے جسکی طاقت 20 ہزار ٹی۔این۔ٹی سے زیادہ ہے۔اس واقعہ کے تین دن بعد 9 اگست کو امریکی ہوائی جہاز نے ناگاساکی پر ایٹم بم پھینک کر مزید تباہی مچائی جسکے بعد 10 اگست کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے۔ 14 اگست کو شرائط طے ہوئیں جبکہ 2 ستمبر کو شکست نامے پر دستخط ہوئے جسکے ساتھ دوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہوئی۔ جب امریکی صدر ٹرومین سے یہ سوال پوچھا گیا کہ امریکہ نے جاپان کے بے گناہ شہریوں کیخلاف اتنا مہلک ہتھیار استعمال کیوں کیا؟ تو ٹرومین کا جواب تھا کہ ہم نے یہ ہتھیار اپنے دو لاکھ امریکی سپاہیوں کی جانیں بچانے کیلئے استعمال کیا ہے۔ گویا ٹرومین نے ایک طرح سے عالمی سیاسی اجارہ داری کا اعلان کر دیا!
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی سیاسی اجارہ داری کو قائم رکھنے کیلئے امریکہ کی خارجہ پالیسی کا بنیادی محور کمیونزم کے پھیلاو¿ کو روکنا تھا چنانچہ سرد جنگ میں ٹرومین‘ آئزن ہاور‘ کینیڈی‘ کارٹر اور ریگن ڈاکٹرائن سوویت یونین کیخلاف اسی مشن پر کاربند نظر آئیں۔ہمارے ہاں بھی سویت یونین کیخلاف جنرل ضیا کے پیریڈ میں جہادی فیکٹریاں لگنا شروع ہوئیں۔1991ءمیں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا جس کا اثر یہ ہوا کہ دوسرے ملکوں میں امریکی مداخلت تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی۔1991ءمیں کویت پر عراقی قبضے کیخلاف جنگ میں امریکہ نے اتحادی فورسز کے ساتھ ملکر عراقی فورسز کو شکست دی۔1993ءمیں موغا دیشو صومالیہ میں ملٹری اپریشن کیا گیا۔1994ءمیں ہیٹی کے صدر جان برٹرینڈ کا ”جمہوریت لاو¿“ کے نام پر اپریشن کے ذریعے تختہ الٹا گیا۔ اسی عرصہ کے دوران امریکہ نے نیٹو کی مدد سے سربیا کیخلاف اعلان جنگ کیا اور 1995ءمیں یوگو سلاویہ کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1998ءمیں القاعدہ ٹرینگ کیمپس افغانستان اور سوڈان میں فارماسوئٹکل کمپنیوں کیخلاف امریکی اپریشن کیا گیا۔امریکہ کی ریاست پینسلوانیہ کی کارنیج میلن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈولیون کے ایک تحقیقی مقالہ کیمطابق 1946ئ سے لیکر سال 2000ءتک امریکہ نے اپنی سیاسی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کیلئے مختلف ممالک میں 81 مرتبہ مداخلت کر کے حکومتیں بدلیں۔ 9/11 کے بعد ہمارے سامنے امریکی سیاسی اجارہ داری کا سب سے خوفناک پہلو سامنے آتا ہےجب امریکہ 2001ءمیں افغانستان پر حملہ کر کے ڈیزی کٹر اور کلسٹر بمبوں کے ذریعے تورابورا کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔افغانستان کے بعد 2003ءمیں عراق پر حملہ کرکے عراق کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے.اس جنگ میں 10 لاکھ عراقی شہری ہلاک ہوئے۔ عراق جنگ کے بعد عرب سپرنگ کے ذریعے لیبیا میں خانہ جنگی کروادی جاتی ہے اور آج تک لیبیا خانہ جنگی کا شکار ہے۔مصر میں مرسی کے اقتدار کاخاتمہ کرکے اقتدار جنرل سیسی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ اسی عرصہ کے دوران تیونس‘ الجیریہ اور یمن میں امریکی مداخلت کے ذریعے بغاوتیں سامنے آتی ہیں جبکہ حال ہی میں اسرائیل کے ذریعے مشرق وسطی کا مکمل نقشہ تبدیل ہورہا ہے۔ فلسطین‘ لبنان اور شام میں اگرچہ حملہ آور بظاہر اسرائیل نظر آتا ہے تاہم اسکو ایسا کرنے میں امریکہ کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ براہ راست امریکہ خال خال ہی جنگ میں کودا ہے اور امریکہ نے ساری لڑائی پراکسی جنگوں کے ذریعہ لڑی ہے۔
امریکہ کی مختلف ممالک میں بار بار مداخلت کی پالیسی کو امریکی معیشت دانوں اور امریکی تھنک ٹینک نے حالیہ برسوں میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ ان کے نزدیک امریکی فوجی و سیاسی مداخلت سے امریکی معیشت کمزور ہوئی ہے‘ دوسری طرف امریکہ کی جنگوں میں مداخلت سے نہ صرف دنیا کے عوام بلکہ امریکی عوام بھی متاثر ہوئے ہیں۔ امریکہ کی جنگوں سے فائدہ فقط ان مخصوص صنعتی گروپوں نے اٹھایا ہے جو اسلحہ سازی کی صنعت سے وابستہ ہیں اور انکی فیکٹریاں دھڑا دھڑ اسلحہ بنانے کا کام کر رہی ہیں جبکہ عام امریکی شہری کی حالت پہلے سے ابتر ہوئی ہے ۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ جنگوں کو ختم کرکے امریکی عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنائے گا۔ ٹرمپ اگر واقعتا ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بلاشبہ یہ امریکہ کی اپنی معاشی ترقی کیلئے بھی بہتر ہوگا جبکہ امریکہ کی فوجی پوزیشن بھی کمزور نہیں ہوگی۔ پرامن دنیا کا حصول بھی اسی اصول میں مضمر ہے کہ جنگوں کو روکا جائے۔ اقوام متحدہ کےقیام کا بنیادی مقصد بھی دنیا کو امن و تحفظ فراہم کرنا ہے مگر افسوس کہ امریکہ بہادر نے خود ہی اس ادارے کو بےاثر کر رکھا ہے۔جسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ کے ایشو پر اسرائیل کیخلاف 52 قراردادیں سامنے آئیں جنکو امریکہ نے ویٹو کیا ہے۔دوسری طرف اقوام متحدہ کشمیر اور فلسطین سمیت کوئی ایک مسئلہ بھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک اور عوام کے سامنے اس ادارے کی 80سالہ کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس یہ شاندار موقعہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو دنیا میں امن و تحفظ فراہم کرنے کیلئے ایک موثر ادارے میں تبدیل کرے تاکہ تیسری دنیا کے ملکوں کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں بصورت دیگر دنیا کا امن و سکون تہہ و بالا رہے گا۔ دوسرے ملکوں پر قبضے کی جنگیں اب ختم ہونی چاہیں۔آج اقوام عالم کو شعور اور امن و سلامتی پر مبنی ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے جہاں دنیا امن کا گہوارہ نظر آئے۔