کوئی ان کو احساسِِ ذلت دلا دے

بچپن میں سنتے اور سمجھتے آئے تھے کہ ’’نظر نہ آنے والے‘‘ بہت خاص لوگ ہوتے ہیں۔ انکے پاس سلیمانی ٹوپی یا چولا تو ہوتا ہی ہے، اس کے ساتھ سفر کیلئے اْڑن قالین کی سہولت بھی بدرجہ اْتم موجود ہوتی ہے۔ الف لیلہ یا طلسم ہوشربا کی کہانیوں میں اکثر ایسے کرداروں سے سامنا ہوتا تو انکی قسمت کو داد دینے کو دل چاہتا۔ اس کے علاوہ دوسری قسم کی نظر نہ آنے والی مخلوق سے بھی خاص واقفیت تھی جو ایڈگرایلن پو کی داستانوں میں بکثرت پائی جاتی تھی۔ عام لوگوں کو راہ چلتے مکھی، مچھر بنا دینا یا زندہ نگل جانا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوا کرتا تھا۔ حقیقی زندگی یقیناً اس سے مختلف ہوتی ہے لیکن بچپن سے لڑکپن کی حدوں کو چھونے تک ہم یہ سب سچ سمجھتے رہے۔
ایک روز نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے والے سیاہ فام امریکی مفکر رالف ایلیسن کا ناول ’’نظر نہ آنے والا شخص‘‘ (man Invisible ) پڑھا تو گیارہ سو وولٹیج کے جھٹکے کے ساتھ ہی سوچ کی کایا کلپ ہو گئی۔ کیونکہ نظر نہ آنیوالا شخص تو حقیقت میں بہت ہی کمزور نکلا جو عالمی اشرافیہ سے محض اپنی موجودگی کی دلیل یا احساس چاہتا تھا۔ لیکن زمانہ اسے ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ کی طرح نظر انداز کئے جا رہا تھا کیونکہ عالمی اشرافیہ کو اس کے ہونے نہ ہونے کے احساس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ اندر ہی اندر سمجھتی تھی کہ اس نظر نہ آنے والے شخص کا اس جہان سے خاموشی سے گزر جانا ہی بہتر ہے۔
دنیا کو رالف ایلیسن کے نظر نہ آنیوالے سیاہ فام شخص کی عینک سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ اپنی ذات میں بظاہر ایک شخص درحقیقت دنیا بھر کے کروڑوں، اربوں لوگوں کا نمائندہ ہے۔ وہ اربوں لوگ جن کا کام ہی ذات پات، نسل پرستی، عالمی و مقامی سیاست بازی کی بھینٹ چڑھ جانا ہے۔ ان کا کوئی ماضی ہے نہ حال اور مستقبل کا لفظ تو انکی ڈکشنری تک میں شامل نہیں۔ ان لوگوں کیلئے وقت تھم جاتا ہے۔ ایک قربان ہوتا ہے تو دوسرا اسکی جگہ لے لیتا ہے۔ بس یہی انکی زندگی کی کْل کہانی ہے۔
رالف ایلیسن کے بعد الیکس ہیلے کا ناول روٹس (Roots) نظر سے گزرا تو نہ صرف چودہ طبق روشن ہو گئے بلکہ دماغ کی بتی بھی جل اْٹھی کیونکہ اس کے ذریعے معلوم ہوا کہ آج مہذب کہلائے جانے والے ملک کس قدر گھناؤنی ’’غلام تجارت‘‘ سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے والے چنگیز خان، ہلاکو اور تیمور ابھی بھی زندہ ہیں بس نام بدل لئے ہیں۔ اب ان میں سے کسی کا نام ’’جمہوری نظام‘‘ ہے تو کوئی ’’انسانی حقوق کا چیمپئن‘‘ کہلاتا ہے۔ کوئی سوشلسٹ تو کوئی کمیونسٹ بن چکا ہے۔ آج کے ہلاکو مشرق و مغرب میں ہر جگہ دلکش نعروں کے ساتھ اپنی دکان چمکاتے اور نظر نہ آنے والے کروڑوں اربوں لوگوں کو دلفریب گولی دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ انکی گولی ایک ہی کام کرتی ہے اور وہ کام قسمت کے مارے نظر نہ آنے والوں کو جال میں پھانس کر اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔انسانی حقوق کے بڑے بڑے چارٹروں ، انصاف کے مرکزوں اور پارلیمانوں جیسے عوامی اداروں کی بنیادوں میں ابھی تک انسانی کھوپڑیوں کا کنکریٹ ڈالا جا رہا ہے انہیں مضبوطی اور توانائی بخشنے کیلئے انسانی خون سے غسل دیا جاتا ہے۔ ان تابناک عمارتوں پر انصاف اور میرٹ کے ہجے لکھنے کیلئے انسانی ہڈیوں کو پیس کر روشنائی تیار کی جاتی ہے اور انہیں دوام بخشنے کیلئے کتنے ہی گریبان چاک ہوتے ہیں اور ان چاک گریبانوں کا شیشوں کی طرح کوئی مسیحا نہیں ہوتا کیونکہ خونِ خاک نشیناں کا تو کام ہی رزق خاک ہونا ہے، اس سے زیادہ وہ کیا کر سکتا ہے۔ اس کے مقدر میں فصل گْل آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دنیا صدیوں سالوں سے ایسی ہی ہے درد کی زنجیر کا سلسلہ ٹوٹا نہیں۔ کچھ عظیم لوگوں نے زخموں پر مرہم ضرور رکھا ہے لیکن درد کی مسافت جاری ہے کیونکہ دراصل دنیا کو لگنے والا ناانصافی اور سفاکی کا روگ محض ایک زخم نہیں بلکہ وہ ناسور ہے جسے ’’رفو‘‘ کرنے کیلئے نہ جانے کتنے زمانے چاہئیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنی آہوں سے اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگا۔نیو لبرل ازم، کیپٹل ازم، جاگیرداری، کمیونزم، سوشلزم مختلف نام رکھنے والا ایک ہی جال ہے جس کی ایک ہی بنیاد ہے، جس کا ایک ہی مدعا ہے اور وہ کروڑوں، اربوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیکر چند سو یا زیادہ سے زیادہ چند ہزار لوگوں کو طاقت مہیا کرنا ہے۔
ازابیلہ ولکرسن نے اپنی کتاب ’’ذات پات‘‘ (Cast) میں ڈھول کا پول خوب انداز میں نمایاں کیا ہے۔ انکے مطابق ذات پات اور نسل پرستی کو فروغ دینے والی تین ریاستیں سب سے نمایاں ہیں۔ ان میں سے امریکہ اور بھارت تو ابھی تک جمہوریت جمہوریت کھیل رہے ہیں جبکہ جرمنی کا نازی ازم گہری نیند سو کر دفن ہو چکا ہے۔ جمہوریت کے چیمپئن بننے کا دعویٰ کرنے والے امریکہ اور بھارت بھی نازی جرمنوں کی فہرست میں شمار کئے جائیں تو پھر ’’کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں‘‘ اور کروڑوں، اربوں سادہ دل بندے کہاں جائیں۔
لگتا ہے عالمی اشرافیہ کے چند ہزار نمائندوں نے اس دنیا کو ایک بڑا پتلی گھر سمجھ لیا ہے وہ ’’جب چاہو معیشت اٹھادو، جب چاہو گرا دو‘‘ کہیں جنگ چھیڑ دو تو کہیں مگرمچھ کے آنسوؤں کے ساتھ انسانیت کا نوحہ پڑھ دو، کہیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کھلا چھوڑ دو تو کہیں امداد کے ڈونگرے برسا دو‘‘ اسکے ساتھ ڈھکوسلوں اور دلاسوں کے قلم سے ایسی کہانیاں لکھتے رہو جن کا کوئی انجام نہ ہو اور ایک کے بعد ایک لچھے دار دلیل، سہانے دنوں کی امید بھری بھول بھلیاں ہوں تاکہ مخلوق خدا ان میں اْلجھی رہے اور نام والوں کا نام چلتا رہے۔
ختم ہوتی ہوئی کہانیاں اپنے اندر بیداری کا زود اثر ٹانک رکھتی ہیں مختلف سوالوں کو جنم دیتی ہیں اور یہ سوال انسان کی حقیقی آزادی سے لیکر ڈھونگ جمہوری تماشے بند کرنے کے اصرار پر بھی مشتمل ہو سکتے ہیں اس لئے کہانیاں چلتی رہتی ہیں اور بوریت محسوس ہونے پر اچانک سنسنی خیز موڑ آ جاتے ہیں اورکہانیاں ختم نہیں ہوتیں۔ آہنی دیواروں کا زمانہ ختم ہوا لیکن آہنی سرابوں کا دور جاری ہے پْتلی گھروں کی افزائش رواں دواں ہے اور یہ سب کام مکمل احتیاط کے ساتھ جاری رہتا ہے کہ چند ہزار اشرافیہ کے ہاتھوں پتلی بنے انسان کسی ٹھوکر کے لگنے پر بیدار نہ ہو جائیں۔ کیونکہ وہ بیدار ہو گئے تو انسانی حقوق کو فائلوں میں بند کاغذوں میں نہیں بلکہ چلتی پھرتی دنیا میں عملی طور پر دیکھنے کا مطالبہ کرینگے اور اگر وہ ایسا کر بیٹھے تو پھر عالیشان ایوانوں کا توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔ وہ توازن جو انکی کھوپڑیوں اور خون کے سہارے قائم ہے۔
 پْتلی گھروں میں کبھی کبھار بھڑکتی احتجاج کی چنگاریوں سے عالمی اشرافیہ بہت پریشان رہتی ہے۔ اسی لئے تماشے کو نئے موڑ دے کر جھوٹے بھرم قائم رکھنے کیلئے کشتوں کے پشتے لگا دیئے جاتے ہیں کیونکہ خلق خدا نے راج کرنا شروع کر دیا تو مظلوموں کے پاؤں تلے صرف دھرتی ہی دھڑ دھڑ نہیں دھڑکے گی بلکہ چند ہزار نفوس کی من مرضی اور اقتدار بھی ملیامیٹ ہو جائے گا۔ 
آج فیض کی نظم ’’کتے‘‘ پر اختتام کرتے ہیں 
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے 
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی 
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا 
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی 
نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے 
غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو 
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو 
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے 
یہ فاقوں سے اْکتاکے مر جانے والے 
مظلوم مخلوق گر سر اْٹھائے
 تو انسان سب سرکشی بھول جائے 
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں 
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چپا لیں 
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے 
کوئی ان کی سوئی ہوئی دْم ہلا دے

ای پیپر دی نیشن