مکمل انصاف یا مکمل تباہی؟

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ایک بات بڑی واضح دکھائی دیتی ہے کہ ہر عروج پذیر تہذیب کی بنیاد میں انصاف پر مبنی ٹیکس نظام کی اینٹیں لگی ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ مغلیہ سلطنت ہو یا خلافتِ عباسیہ کا زمانہ ہو، ہر دور میں حکمرانوں نے یہ سمجھا کہ عوام سے ٹیکس وصول کرنا مسند اقتدار کا حق نہیں بلکہ ایک مقدس امانت ہے۔ اِس امانت کی حفاظت کا تقاضا یہ تھا کہ ہر شہری سے اْس کی استطاعت کے مطابق ٹیکس لیا جائے اور اْس کے بدلے میں اْسے تحفظ، انصاف، اور بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ مگر آج کا پاکستان اِس اصول سے کوسوں دور کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ عالمی بینک کے ماہرین جس بے لاگ انداز میں پاکستانی ٹیکس نظام کو "غیرمنصفانہ اور نامناسب" قرار دے رہے ہیں، وہ محض ایک ادارے کی رائے نہیں، بلکہ اْس قوم کا المیہ ہے جو اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں لوٹی جا رہی ہے۔

پاکستان کے ٹیکس نظام کی کہانی اْس کشتی کی مانند ہے جس میں چھید ہوچکے ہوں، اور ناخدا اْسے ڈوبتا دیکھ کر بھی مرمت کرنے کی بجائے مسافروں سے مزید سامان سمندر میں پھینکنے کو کہے۔ 24 کروڑ کی آبادی میں صرف 50 لاکھ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے افراد ہیں اور یہ کوئی معمولی عدد نہیں۔ یہ تو اْس بدن کی مانند ہے جس کا 98 فیصد حصہ مفلوج ہو اور صرف 2 فیصد اعضاء کام کر رہے ہوں۔ کیا ایسا بدن زندہ رہ سکتا ہے؟ کیا ایسا نظام چل سکتا ہے؟
اسلام آباد میں ہونے والے ایک مباحثے میں عالمی بینک کے ماہرین نے درست کہا کہ پاکستان کا ٹیکس بوجھ صرف تنخواہ دار طبقے پر ڈالا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مہینے کے آخر میں تنخواہ لیتے ہیں تو اْس کا ایک حصہ خود بخود کٹ جاتا ہے۔ یہ کوئی ٹیکس نہیں، بلکہ ایک "جبری چندہ" ہے جو غریب کو غریب تر بناتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف، جاگیردار، صنعتکار اور جائیدادوں کے مالک ٹیکس کے جال سے بالکل آزاد ہیں۔ تو کیا یہ وہی انصاف ہے جس کا خواب قائدِ اعظم نے دیکھا تھا؟
ٹیکس کی دو اقسام ہوتی ہیں، اول براہِ راست اور دوم بالواسطہ۔ ترقی یافتہ ممالک میں امیروں پر براہِ راست ٹیکس عائد کیا جاتا ہے، تاکہ معاشرے کی دولت منصفانہ طور پر تقسیم ہو۔ مگر پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہاں بالواسطہ ٹیکس (جیسے سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی) کا بوجھ غریب پر ڈالا جاتا ہے۔ روٹی، دوا اور بجلی تک پر ٹیکس لگا کر غریب کا گلا گھونٹا جا رہا ہے جبکہ امیر طبقہ اپنی آمدن کو ٹرسٹوں، آف شور کمپنیوں اور جائیدادوں میں چھپا لیتا ہے تو کیا یہ ٹیکس نظام دراصل نظامِ ظلم نہیں؟
عالمی بینک کے اکانومسٹ کے مطابق زرعی آمدن اور جائیدادوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہماری حکومت میں اتنی ہمت ہے کہ وہ زمینداروں اور جاگیرداروں کو ٹیکس دینے پر مجبور کرسکے؟ بلوچستان کے پہاڑوں میں چھپے معدنی خزانے ہوں یا پنجاب کے کھیتوں میں اْگتی ہوئی فصلیں ہوں، یہ سب قوم کی ملکیت ہیں۔ مگر اِن پر قبضہ کرنے والے ٹیکس ادا کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں؟
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ڈیجیٹل نظام کے ذریعے ٹیکس وصولی بہتر ہوگی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کہیں ڈیجیٹلائزیشن بھی محض ایک نعرہ تو نہیں ہوگا؟ جب تک زمینوں کے ریکارڈ پر جاگیرداروں کا قبضہ رہے گا اور جب تک صنعتی یونٹس کے مالکان اپنی آمدن چھپاتے رہیں گے، تب تک ڈیجیٹل نظام بھی بے کار ہی ثابت ہوتا رہے گا۔ ہمارے سامنے ترکیہ کی مثال موجود ہے۔ ترکیہ نے ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ٹیکس نظام کو کیسے تبدیل کیا؟ اْنہوں نے ہر شہری کی آمدن اور جائیداد کو آن لائن رجسٹر کیا، اور ہر فرد کو ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا۔ کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ جب تک طاقتور طبقے کو سہولتیں دی جاتی رہیں گی، تب تک ڈیجیٹل نظام بھی اْن کی خدمت میں لگا رہے گا۔
ورلڈ بینک کے ماہرین کی رائے میں پاکستان کے ٹیکس نظام کو "غیرمنصفانہ" قرار دینا کوئی نیا انکشاف نہیں۔ یہ تو وہ کڑوی حقیقت ہے جو ہم سب جانتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے اِس نظام کو کیوں قبول کر رکھا ہے؟ کیا ہمارے عوام اتنے بے بس ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے؟ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ فرانس کے انقلاب کی بنیاد بھی دراصل ٹیکس کا ہی مسئلہ تھا؟ انقلابیوں نے کہا تھا کہ اگر ہم سے ٹیکس لینا ہے تو ہمیں نمائندگی بھی دینا ہوگی۔ لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہاں نمائندگی کا حق بھی امیروں کی جاگیر ہے اور ٹیکس کا بوجھ صرف غریبوں کو اٹھانا ہوتا ہے۔ کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس کی خاطر ہم نے قائدِ اعظم کی قیادت میں ایک الگ مملکت کی تحریک چلائی تھی؟
عالمی بینک نے جو سفارشات پیش کی ہیں، وہ درست ہیں مگر ناکافی۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا، زرعی اور جائیداد کے شعبوں کو ٹیکس میں لانا، اور ڈیجیٹل نظام کو فعال کرنا، یہ سب اقدامات ضروری ہیں۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں ٹیکس نظام کو انصاف پر مبنی بنانے کا عزم نہیں ہے۔ جب تک زمیندار، صنعت کار اور سیاستدان خود ٹیکس ادا کرنے سے گریز کریں گے، تب تک غریب کا استحصال جاری رہے گا۔
ترقی یافتہ ممالک کی مثال لیں۔ سویڈن میں ہر شہری کی آمدن اور جائیداد کا ریکارڈ عوامی ہوتا ہے۔ کوئی بھی شہری دوسرے کا ٹیکس ریکارڈ چیک کرسکتا ہے۔ یہ شفافیت ہی تو ہے جو انہیں ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ جب تک ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے اراکین خود ٹیکس چور ہوں گے، تب تک کیا امید کی جاسکتی ہے؟
قارئین محترم! پاکستان کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ وہ ہے جس پر ہم چل رہے ہیں یعنی ٹیکس چوری، اقربا پروری اور غریب کا استحصال۔ دوسرا راستہ وہ ہے جو تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ انصاف، مساوات اور ہر شہری سے اْس کی استطاعت کے مطابق ٹیکس لینا۔
اگر ہم نے پہلا راستہ اختیار کیا تو یہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کر دیوالیہ ہوجائے گا۔ اگر ہم نے دوسرا راستہ چنا تو پاکستان دنیا کی مثال بن سکتا ہے۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنے ٹیکس نظام کو انصاف پر مبنی بناتی ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ اور جو قومیں اِس میں ناکام ہوتی ہیں، وہ تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان کو کس راستے پر چلنا ہے؟ ہم نے مکمل انصاف کے راستے کا انتخاب کرنا ہے یا پھر مکمل تباہی کی پگڈنڈی پر چلتے رہنا ہے۔ یہ ہم سب کا سوال ہے۔

ای پیپر دی نیشن