ہرسال ہزاروں مریض اعضاء ٹر انسپلانٹ سے محروم رہ جاتے ہیں

  ملک میں قدرتی اعضاء عطیہ کئے جانے  کیلئے مشکلات کی وجہ سے  ہمارے ہاں ہر روز  ہسپتالوں کی چار دیواری کے پیچھے کئی خاندان خاموشی سے اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے نہیں کہ ان کا علاج ممکن نہیں بلکہ اس لیے کہ یہ لوگ زندگی بچانے والے ٹرانسپلانٹ کے نظام سے دورہیں ماہرین صحت اور ٹرانسپلانٹ تنظیموں کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں روزانہ10 سے 15مریض عضو عطیہ کے انتظار میں دم توڑ دیتے ہیں۔ہر سال پچیس ہزار سے زائدپاکستانیوں کو جگر کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے سات ہزار سے زیادہ افراد کو گردے کی پیوندکاری درکار ہوتی ہے لیکن حقیقت میں ہونے والے ٹرانسپلانٹس کی تعداد نہایت کم ہے ضرورت مندوں اور علاج پانے والوں کے درمیان یہ خلیج صرف ایک صحت کے اعدادوشمار کا مسئلہ نہیں یہ  نظام کی کمزوری کی نشاندہی ہے جو روزانہ انسانی جانوں کو نگل رہا ہے پاکستان میں وفات کے بعد عضو عطیہ کرنے کی شرح تقریبا صفرکے برابر ہے اس کی وجوہات میں ثقافتی اور مذہبی غلط فہمیاں عوامی آگاہی کی کمی فرسودہ قوانین ہیں دوسرے ممالک جہاں عضو عطیہ کو ''زندگی کا آخری تحفہ''سمجھا جاتا ہے وہاں پاکستان میں اس عمل کو نظرانداز کرکے موت کو معمول بنا دیا گیا ہے مسائل کا انبارعوامی بے حسی اور غلط فہمیاں ہیں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عضو عطیہ کرنا مذہبی یا اخلاقی طور پر غلط ہے حالانکہ دنیا بھر کے اسلامی اسکالرز اسے انسانی جان بچانے کا عظیم عمل قرار دیتے ہیں عوامی سطح پر اس بارے میں کوئی موثر آگاہی مہم نہیں چلائی گئی پاکستان میں ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کا بے اثر ہونابھی ایک وجہ ہے ہوٹاکو تنظیم اور نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن یہ صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہے نہ تو کوئی قومی ڈونر رجسٹری بنائی گئی نہ ہی عوام کو اس سلسلے میں تعلیم دی گئی طبی انفراسٹرکچر کی کمی ٹرانسپلانٹ سینٹر صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں موجود ہیں دیہی علاقوں کے مریضوں کے لیے علاج تک رسائی تقریبا ناممکن ہے گردوں کی بلیک مارکیٹ میں خریدوفروخت بھی ایک المیہ ہے جہاں غریب لوگ مجبورا اپنے اعضاء  فروخت کرتے ہیں امیر مریض غیر قانونی طریقوں سے فوری ٹرانسپلانٹ کروا لیتے ہیں جبکہ غریب لمبی قطاروں میں انتظار کرتے کرتے مر جاتے ہیں جن بچوں کو پیدائشی طور پر اعضا ء￿  کی بیماریاں ہوتی ہیں ان کے لیے صورتحال اور بھی دگرگوں ہے پاکستان میں بچوں کے لیے مخصوص ٹرانسپلانٹ سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے کئی معصوم زندگیاں وقت سے پہلے ختم ہو جاتی ہیں دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان ابھی بہت پیچھے ہے اسپین، ایران اور دیگر ممالک نے عضو عطیہ کے نظام کو بہتر بنایا ہے انہوں نے عوامی مہمات جدید قوانین اور انفراسٹرکچر کی ترقی پر کام کیاپاکستان میں سیاسی مرضی اور عوامی دباؤدونوں ہی ناکافی ہیںمیڈیا اور  اس ضمن میں اپنے کردارادا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے لیکن اس بحران کی اصل وجوہات پر بات نہیں ہوتی جب تک پاکستان اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری کو تسلیم نہیں کرتا یہ بحران جاری رہے گا ہر روز10سے 15 لوگ خاموشی سے مر رہے ہیں یہ وہ جانیں ہیں جو بچائی جا سکتی تھیں یہ بحران صرف اعدادوشمار کا نہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور قومی ذمہ داری کا امتحان ہے کیا ہم اپنے لوگوں کو مرتے دیکھتے رہیں گے یا پھر اس خاموش قتل عام کو روکنے کے لیے آواز اٹھائیں گے سماجی غلط فہمیوں کی وجہ سے اعضاء￿  کے عطیات کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں روزانہ 10سے 15اموات ہو رہی ہیں یہ تعداد امریکہ میں 20تک پہنچ چکی ہے متعلقہ صورتحال نے ماہرین کو زندہ اور مردہ اعضا دونوں کے عطیات کو فروغ دینے کے لیے فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ زینو ٹرانسپلانٹیشن، یا جانوروں سے انسانی اعضا کی منتقلی کی انقلابی صلاحیت کو بھی تلاش کیا ہے پاکستان میں اعضا ء کی خرابی کے شکار مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود، ثقافتی غلط فہمیاں اور مذہبی ہچکچاہٹ انسانی اعضا ء کے عطیہ کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس سے ہزاروں افراد زندگی کے دوسرے موقع کے انتظار میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کراچی میں ڈا یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام ٹرانسپلانٹیشن سے متعلق پہلی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی نژاد امریکی ماہر ٹرانسپلانٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد منصور محی الدین نے کہا ہے کہ امریکہ میں اعضا کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر 80منٹ میں ایک مریض کی موت ہو جاتی ہے پروفیسر محی الدین نے مزید کہاکہ پیوندکاری ممکنہ طور پر انسانی زندگی کو 2سال تک بڑھا سکتا ہے اور یہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بہت بڑا وعدہ ہے جہاں اعضا کے عطیہ کی شرح انتہائی کم ہے ۔ڈاکٹر محی الدین زینو ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے ایک جانور کا دل انسان میں پیوند کر چکے ہیںڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزکے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے پاکستان کی طبی تاریخ میں اسے ایک اہم سنگ میل قرار دیاہے کانفرنس میں امریکہ، برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطی کے 22سے زائد بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی شرکا میں پروفیسر جان فنگ، یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر جان لا میٹینا، اٹلی سے پروفیسر پالو گروسی، بارسلونا، اسپین سے پروفیسر فائز کرٹ بریڈ ڈک مین، ٹیکساس، یو ایس سے پروفیسر عامر احسان، اور برطانیہ سے پروفیسر عدنان شریف شامل تھے مقررین نے کہا کہ ٹرانسپلانٹ کے بعد انفیکشن موت کی سب سے بڑی وجہ رہے یہی وجہ ہے کہ متعدی امراض کے ماہرین کو بھی کانفرنس میں مدعو کیا گیا انہوں نے کہا کہ ایک عطیہ کرنے والا سات جانوں تک بچا سکتا ہے ایران اور سعودی عرب جیسے اسلامی ممالک پہلے ہی دماغی طور پر مردہ مریضوں کے اعضا ء کے عطیہ کی اجازت دے چکے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن