قدرے کشیدہ سیاسی ماحول میں پہلی خاتون وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے مریم نواز شریف کی سرگرم زندگی کا ایک سال فروری کے آخر میں مکمل ہونے والا ہے۔ اس دوران ایک طرف ان کے مخالفین نے ان کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنائے رکھا ہے اوردوسری طرف ان کے مداحوں نے یہ پورا عرصہ ان کی عوامی خدمت کی سیاست کا منفرد عرصہ بھی قرار دیا ہے۔اس صورتحال کا جائزہ لینے سے پہلے چند لائنیوں میں صحافتی اور تخلیقی حوالے سے لاہور کو سرخرو رکھنے کی روائت کو آگے بڑھانے والے تین اہم ناموں کا تذکرہ جنہوں نے دسمبر کے آخر اور جنوری کے آّغاز میں اوپر نیچے ہمیں سوگوار چھوڑا۔۔ وحید رضا بھٹی ایک بڑے بیورو کریٹ مگر اس سے زیادہ ایک بڑے اور کھرے پاکستانی دانشور تھے جن کی باقی تخلیقات کے علاوہ مجید شیخ کی کتاب LAHORE TALES WITHOUT END کے ترجمے قصے لاہور کے۔ کو یو بی ایل ادبی انعام ملا تھا۔1993ء کے بہترین سٹوری رائٹر کا اعزاز بھی پایا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے جریدہ راوی کے انتہائی متحرک مدیر سے،ڈی جی امپورٹ ایکسپورٹ پاکستان کے منصب تک بھرپور زندگی کے حامل رہے لیکن غرور تکبر سے کوسوں دور۔ اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں کے ہم درد،بلا کا حافظہ اورعلم دوستوں کے ایک وسیع حلقے کی دولت سے مالا مال تھے۔ سید تاثیر مصطفی صحافت کے استاد اور عامل صحافی کی حیثیت سے ایک معتبر نام۔ اسلم کمال اپنی جگہ مصورانہ خطاطی میں خط کمال کے بانی شاعر سفر نامہ نگار اور بہت کچھ۔دونوں کیلئے پریس کلب اور الحمرا میں دعائیہ تقریبات کا اہتمام ہوا تو ان کے چاہنے والے اور مداح بڑی تعداد میں نم آنکھوں اور تحسین و آفرین کے لفظوں کے ہار لئے موجود تھے۔ پریس کلب کے نثار عثمانی ہال میں نوائے وقت کے انچارج ایڈیٹوریل سینئر صحافی سعید آسی کی صدارت میں کلب کے صدر ارشد انصاری نائب صدر امجد عثمانی سیکرٹری زاہد عابد حامد ریاض ڈوگر سمیت بہت سے احباب نے سید تاثیر مصطفی کو خراج محبت پیش کیا۔ تاثیر مرحوم کے اہل خانہ انجینئر بیٹے طلال مصطفی ہلال مصطفی بیٹی ڈاکٹر ملیحہ مصطفی اورر بیگم بھی تعزیتی ریفرنس میں موجود تھیں۔ سید تاثیر مصطفی بیک وقت بڑے اخباروں میں ادارتی خدمات ادا کرنے کے علاوہ معروف جریدوں میں سائیان کے عنوان سے کالم اور خاص طور پر سید مجاہد علی کے کاروان ڈاٹ کام میں تجزیاتی کالم لکھتے رہے پر یس کلب مولانا ظفر علی خان فائونڈیشن آزاد ویلفیئر فائونڈیشن ڈاکٹر مغیث الدین فائونڈیشن اورمنہاج یونیورسٹی سمیت کئی اہم تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے کے باعث دوستوں اور شاگردوں کا وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ انہوں نے قاضی حسین احمد نوابزادہ نصراللہ سمیت مختلف سیاستدانوںکے خوبصورت خاکے بھی لکھے اور داد پائی۔کاش ان کی تخلیقات کتابی صورت میں شائع ہو سکیں۔الحمرا میں اسلم کمال کی تخلیقی کائنات کوسنبھالنے والی تخلیق کار بیٹی عظمی کمال کی دعوت پر اسلم کمال کی محبت میں آئے بڑے قد کے دانشوروں کی ایک بڑی تعداد کے جذبات دیدنی تھے۔ سٹیج پر خراج عقیدت کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ لاہور اور پنجاب اور پاکستان کی تہذیبی زندگی ادب اورثقافت کو نئی پہچان دینے والے اسلم کمال اپنی ذات میں انجمن تھے۔ انہیں خاص طور پرعلامہ اقبال فیض احمد فیض اور بعض صوفی شعرا کے کلام کی مصورانہ عکاسی کے باعث زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ خود خط کمال کے موجد تھے۔لاہور کی بڑی یونیورسٹیوں اور ایوان اقبال میں انکی مستقل آرٹ گیلریوں کے قیام پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت کئی ملکی اور غیر ملکی اعزازات کے ساتھ کور پور ضلع سیالکوٹ اور لاہور کی تابناکی کا باعث بنے۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ تینوں ممتاز ادبی ادارے پاکستان رائٹرز گلڈ کے بھی رکن اور منصب دار تھے اور اہل قلم کا سر اونچا رکھنے کے لئے تا دم آخر جدوجہد کرتے رہے۔
پنجاب کی تاریخ میں 20ویں اور خاتون ہونے کے ناطے پہلی وزیر اعلی مریم نواز شریف کی پنجاب کی سطح پر اپوزیشن سے کشمکش پہلے روز سے آج تک جاری ہے جب کہ فروری میں ان کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ اس عرصہ میں پہلے پہلے اسی طرح گرد اڑتی محسوس ہوئی جو گھمسان کی جنگوں میں اڑا کرتی ہے لیکن ا نہوں نے روائت کے برعکس بحثوں میں الجھنے کی بجائے اپنی ساری توجہ عوامی خدمت کے منصوبوں کو عملی شکل دینے اور عوام خاص طور پر نوجوان طبقے کے مسائل حل کرنے پر فوکس کئے رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گرد آہستہ آہستہ بیٹھنا شروع ہوگئی ہے اور اب تو حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کی فضا میں انہیں اپنے کام میں اور بھی آسانی ہونے لگی ہے۔ مریم نواز شریف نے اپنے تجربہ کار والد سابق وزیر اعظم نواز شریف کی راہنمائی میں ایک حکمت عملی کے تحت ہر شعبے خاص طور پر بیوروکریسی کے اچھے دماغوں کو جمع کیا اور اہم شعبوں پر فوکس کرتے ہوئے عوام کو فائدہ دینے والے پروجیکٹس پر تیزی سے کام شروع کر دیا۔مختلف وجوہات کے باعث مہنگائی نے لوگوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا سو سب سے پہلے گندم کی خریداری اورقیمتیں مقرر کرنے کے حوالے سے ایسے فیصلے کئے کہ لوگوں کو سستی روٹی میسر آئے۔ پھر صفائی صحت تعلیم بجلی بلوں اور نوجوانوں کو فوکس کیا اور اس کے ساتھ زراعت کی بہتری اور چین کے دورے اورترکی کی سفارت کے ذریعے پنجاب کو سرمایہ کاری کیلئے پر کشش صوبہ بنانے کے اقدامات کئے۔ نتیجہ یہ نکلا کو پنجاب کا مثبت امیج نمایاں ہونا شروع ہو گیا۔نوجوان متوجہ ہوئے۔ صفائی کے حوالے سے پنجاب دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر نظر آنے لگا۔ سولر سہولتوں کی سپورٹ کی امید سے کسانوں کو اپنے سر کا بوجھ کم محسوس ہونے لگا اور صحت کے میدان کے لئے پہلے سے زیادہ فنڈز کے اجرا اور ہسپتالوں میں نئی سہولتوں کی دستیابی سے عوام کی مایوسی امید میں بدلنے لگی۔صرف صحت کے میدان کو ہی لے لیں تو نئی حکمت عملی کے تحت صرف ایک نئے فیصلے سے ماحول مزید بدلتا محسوس ہونے لگا ہے اور اسکی شروعات بھی لاہور کے ایک بڑے اورمصروف ہسپتال یعنی لاہور جنرل ہسپتال سے ہوئی ہیں۔ پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ وامیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر محمد الفرید ظفر نے ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر لاہور جنرل ہسپتال میں کھلی کچہری منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے مریضوں، تیمارداروں اور ہسپتال میں آنے والے شہریوں کے علاوہ ہسپتال کے ملازمین کو درپیش مسائل و مشکلات کے فوری حل کیلئے کھلی کچہری کا انعقاد یکم جنوری 2025سے روزانہ کی بنیاد پر ایڈمن بلاک میں صبح 10سے 11 بجے شروع ہوچکا ہے۔ طے کیا گیا ہے کہ شہری تحریری صورت میں شکایات پیش کریں گے جس میں شناختی کارڈ نمبر اور موبائل نمبر ضرور لکھا ہونا چاہیے۔پرنسپل نے ڈاکٹر یحیٰ سلطان کو کھلی کچہری کا کو آرڈینیٹر مقرر کر دیا ہے۔ ہسپتال کے منصب داروں کی ذمہ داری کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہسپتال میں نئے فیصلے کے دنوں میں ایسوسی ایٹ پروفیسر آف پیڈیاٹرک میڈیسن ڈاکٹر فریاد حسین میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ، لاہور جنرل اسپتال کے والدِ محترم، محمد ریاض حسین، جو کہ ایسے مخلص اور عظیم شخصیت کے مالک تھے کی نماز جنازہ اور تدفین بھی مسجدِ درس بڑے میاں، شالیمار لنک روڈ میں ہوئی۔اس دکھ کی گھڑی میں بھی انہوں نے تدفین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بعدزیادہ رخصت نہیں کی اورہسپتال کا رخ کیا تاکہ دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے اپنے حصے کا کام جاری رکھ سکیں۔اب جنرل ہسپتال سے شروع ہونے والی کھلی کچہری کی روائت پنجاب میں آگے بڑھے گی تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کا دوسرے صوبوں کیساتھ صحت کے میدان میں مقابلے پر کیا اثر پڑے گا اور اڑان پاکستان کے حوالے سے وفاق کو کتنی مدد ملے گی۔
٭…٭…٭