وسائل کم ‘ آبادی زیادہ‘ پاکستان کہاں جارہا ہے

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں مسائل کی ایک لمبی فہرست پہلے ہی عوام کی زندگی کو مشکل بنائے ہوئے ہے۔ ان مسائل میں سب سے سنگین اور تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ یہ ایک ایسا خاموش طوفان ہے جو ہمارے وسائل، معیشت، تعلیم، صحت، اور روزگار جیسے شعبوں کو نگلتا جا رہا ہے۔ ہم ایک ایسی راہ پر چل رہے ہیں جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ تلے ہمارے قدرتی وسائل دم توڑتے نظر آ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی رفتار رہی تو آنے والی نسلوں کے لیے ہم کیا چھوڑ کر جائیں گے؟ پاکستان کی موجودہ آبادی تقریباً 25 کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے اور ہر سال لاکھوں نئے افراد اس میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے، اس تیز رفتار اضافے کے ساتھ نہ تو منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، نہ ہی بنیادی سہولیات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے پہلے ہی گنجائش سے زیادہ بچوں سے بھرے ہوئے ہیں، ہسپتالوں میں مریضوں کا رش حد سے زیادہ ہے اور روزگار کے مواقع سکڑتے جا رہے ہیں۔ قدرتی وسائل جیسے پانی، زمین، اور توانائی محدود ہیں، جبکہ ان پر بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں، مگر کسی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ شہروں کا پھیلاؤ، جنگلات کی کٹائی، پانی اور فضاء کی آلودگی میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوچکاہے۔ پاکستان میںبڑھتی آبادی کے لیے خوراک اور پانی کی ضروریات پوری کرنا ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی زرعی زمین محدود ہورہی ہے اور پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ اگر آبادی پر کنٹرول نہ کیا گیا تو آنے والے سالوں میں خوراک اور پانی کے بحران مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔آبادی پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ محکمہ بہبودِ آبادی کو فعال اور مؤثر بنایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس محکمے میں نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک نئی بھرتیاں کی جائیں تاکہ ہر علاقے میں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات موجود ہوں۔جیسا کہ ادویات اور مشورے کی بروقت فراہمی، آگاہی مہمات کو موثر بنانے، مانیٹرنگ اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ہر گاؤں اور محلے میں لیڈی ہیلتھ ورکر ہمہ وقت دستیاب ہو ں۔ پھرمحکمہ بہبود آبادی  سوشل ایکٹیوسٹ، خصوصاً نوجوانوں، مذہبی علما، کالم نگاروں اور خواتین کے ساتھ آگاہی ورکشاپس کا مسلسل اہتمام کرے۔ سوشل میڈیا آج کے دور میں ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اگر آبادی میں اضافے کے نقصانات اور خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد کو ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیا کے ذریعے عام کیا جائے تو عوام میں تیزی سے آگاہی بڑھے گی۔ ڈرامے، شارٹ فلمز، انٹرویوز، اور کامیاب خاندانوں کی کہانیاں اس مہم کو زیادہ بہتر طور پر کامیاب بنا سکتی ہیں۔ خواتین کی تعلیم اور بااختیار بنانا آبادی پر قابو پانے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت بہتر انداز میں اپنی صحت، بچوں کی تعداد اور خاندانی زندگی سے متعلق فیصلے لے سکتی ہے۔ آج پاکستان میں دورانِ زچگی زچہ و بچہ کی اموات ایک سنگین مسئلہ ہے۔ 
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، پاکستان میں ہر 100,000 زندہ پیدائشوں میں تقریباً 186 خواتین زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ اسی طرح نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات بھی بلند ہے، جوکہ ہر 1,000 پیدائشوں میں تقریباً 42 کے قریب ہے۔ ان اموات کی ایک بڑی وجہ ،بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونا ہے۔والدین کو سمجھنا ہوگا کہ اولاد میں کم از کم تین سال کے وقفے سے وہ اپنے بچوں کو بہتر صحت، تعلیم اور دوسری ضرورتیں مہیا کرسکیں گے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ اگر ہر پیدا ہونے والے بچے کو دو سال تک مائیں دودھ پلائیں اور اس کے بعد تیسرے سال نئے بچے کی پلاننگ کریں تو اس سے ماں بیٹے کی صحت میں خاطر خواہ بہتری آسکتی ہے۔ یہ بات تو ہو کوئی جانتا ہے کہ اسلام ہرانسانی جان کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اگر بچوں کی پیدائش میں وقفہ ماں کی صحت بچانے، بچے کی بہتر پرورش یا گھریلو معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہو، تو ایسا کرنا خیر کے دائرے میں آئے گا۔ اگر آج ہمارے فیصلہ سازوں نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو آنے والے وقت میں ملکی وسائل، نظام اور معیشت آبادی کے بوجھ کو برداشت نہیں کر پائیں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور قوم اپنی آنکھیں کھولیں اور اس سنجیدہ مسئلے کا ادراک کریں۔ آبادی پر قابو پانے کے لیے صرف حکومت کی نہیں، بلکہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں خاندانی منصوبہ بندی کو شرم یا معاشرتی دباؤ کے پردوں میں چھپانے کے بجائے اسے ایک قومی فریضہ سمجھنا ہوگا۔ اسکولوں، کالجوں، مساجد اور میڈیا کے ذریعے عوام میں آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ لوگ جان سکیں کہ کم بچے، خوشحال زندگی کا راز ہیں۔
 علمائے کرام کو بھی آگے بڑھ کر اس معاملے پر رہنمائی کرنی ہوگی تاکہ معاشرہ مذہبی حوالے سے بھی مطمئن ہو سکے۔ اگر ہم آج قدم نہیں اٹھائیں گے تو کل بہت دیر ہو چکی ہو گی۔نصاب میں خاندانی منصوبہ بندی اور صحت کے موضوعات کو شامل کیا جانا چاہیے۔چین نے 1979 میں ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ نافذ کی تھی جس کے ذریعے ہر خاندان کو صرف ایک بچہ رکھنے کی اجازت تھی۔ اگرچہ اس پالیسی کے کچھ منفی اثرات بھی سامنے آئے، جیسے کہ عمر رسیدہ آبادی کا تناسب بڑھنا، لیکن مجموعی طور پر آبادی پر قابو پایا گیا۔ بعد میں اس پالیسی میں نرمی بھی کی گئی۔ پاکستان سے علیحدگی کے دو تین سال بعد ہی بنگلہ دیشی حکومت نے آبادی کنٹرول کرنے کے لیے خواتین کو تعلیم دی، مانع حمل ادویات کی مفت فراہمی کو ہر کسی کے لیے ممکن بنایا اور علما سے خاص طور پر دیہی علاقوں میں آگاہی مہمات چلاوائیں۔ نتیجتاً  بنگلہ دیش کی شرحِ افزائشِ آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ ہمارے پڑوسی ایران نے نوے کی دہائی میں خاندانی منصوبہ بندی کی بھرپور مہم شروع کی، جس میں مذہبی رہنماؤں کی مدد لی گئی اور ماں و بچے کی صحت کو ترجیح دی گئی۔ ایران کی شرحِ پیدائش میں قابلِ ذکر کمی ہوئی اورکسی سال سے امریکہ کی جانب سے لگی پابندیوں کے باوجود ایران  صفائی، صحت اور قانون پر عمل کے حوالے سے ایک کامیاب مثال کے طور پر جانا جاتا ہے۔دیگر کئی ممالک نے عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا، اسکولز اور کمیونٹی پروگرامز کا استعمال کیا۔ ساتھ ہی خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کو دیہی علاقوں تک بھی پہنچایا گیا۔ 

ای پیپر دی نیشن