سیاسی تناو اور اہل دانش کا کردار

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ریاستی اداروں، خاص طور پر فوج، کا کردار انتہائی اہم اور گہرا رہا ہے۔ آرمی چیف کی جانب سے سیاسی قیدیوں اور 9 مئی 2023 کے واقعات میں ملوث مجرموں کے لیے معافی کا اعلان، ایک انتہائی اہم  قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے کو ملکی سیاسی ماحول میں ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا ئے تو اس اقدام سے مختلف سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان تناؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جبکہ کچھ سیاسی جماعتوں کا ردعمل اس فیصلے پر تقسیم ہو سکتا ہے۔ ایک طرف، یہ فیصلہ مصالحت کی طرف قدم ہو سکتا ہے، جبکہ دوسری جانب سیاسی جماعتیں  اس پر اپنے مقاصد کے تحت بیان بازی کرکے سیاسی ماحول کو مزید کشیدہ کر نے کی کوشش کررہی ہیں ۔پاکستان میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید ہو رہی تھی ۔ اس معافی نامے سے پاکستان کے انسانی حقوق کے حوالے سے بہتر تصویر پیش کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔آرمی چیف کی جانب سے معافی کا اعلان ، اگر شفافیت، انصاف اور قومی مفاد کے تحت کیا جارہا ہے تو اس سے ملکی استحکام میں مدد مل سکتی ہے، بصورت دیگر وقت بتائے گا کہ اس فیصلے کے دیرپا اثرات کیا ہوں گے۔
اب یہاں دانشوروں کا کام ہے کہ ملک میں بہتر سیاسی،معاشی،اخلاقی اور معاشرتی ماحول کے لیے  اپنا کردار ادا کریں۔اہم نقطہ یہ ہے کہ اگر میرے ملک کا دانشور طبقہ کرپشن چھوڑ دے تو پاکستان میں اگلے چند سالوں میں ہمیں ایسا ماحول مل سکتا ہے جس میں ہر شہری کو بنیادی حقوق میسر ہوں۔لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اصل میں دانشور ہے کون؟مرشد کہتے ہیں،دانشور وہ ہے جو نہ صرف معاشرے میں پھیلی منفی سوچ کو کم کر کے مثبت خیالات کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتا ہو بلکہ اپنے قول و فعل سے دوسروں کو بہترین راستہ دکھانے کا ہنر جانتا ہو۔ وہ ایک،استاد،کالمنگار،شاعر،مولوی،تاجر،وکیل،بینکر، کسان،  مزدور،سیاسی ورکر یا سیاسی لیڈر بھی ہوسکتا ہے۔جس کے پاس تعلیمی ڈگریاں بھلے بہت زیادہ نہ ہوں لیکن اس کے پاس علم ہو۔دانشور شخص محض الفاظ کا ذخیرہ رکھنے والا نہیں ہوتا، بلکہ اسے معاشرے میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کا فن بھی بخوبی آتا ہے۔ وہ جو جہالت کے پھیلاؤ کو روکتا ہے، ہٹ دھرمی اور تعصب کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، اور اپنے علم و شعور کو دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔وہ فسانے نہیں سناتا بلکہ قابل عمل حل لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ۔پچھلے کچھ عرصے سے نام نہاد موٹیویشنل سپیکرز کی شوگر کوٹڈ باتیں ہمارے نوجوانوں کوزیادہ ذہنی مریض بنارہی ہیں۔کوئی بھی کامیابی اپنے پیچھے کئی عشروں کی انتھک محنت،لگن اور قربانی رکھتی ہے ۔راتوں رات منزل نہیں ملا کرتی۔دانشور کا کام ہی یہی ہے کہ قوم کے لوگوں کی   اخلاقی بنیاد پر اس طرح تربیت کرے کہ وہ مسلسل محنت سے ایسے متحرک ہوں کہ نہ صرف اپنے لیے،اپنوں کے لیے بلکہ وطن کے لیے قابل فخر کام سرانجام دینے والے بنیں۔کہتے ہیں،''دانشورشخص اس وقت مر جاتا ہے جب وہ پریشان حال لوگوں کی زندگی کے عمل کو بہتر بنانے کی بجائے اپنے لیے دولت جمع کرتے ہوئے ،معاشرے اور دور کے مسائل سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔''بدقسمتی سے آج کے معاشرے میں دانشور شخص وہ سمجھا جاتا ہے جس کے پاس اعلیٰ تعلیمی اسناد ہوں۔برانڈڈ کپڑے پہنتا ہوں،عام لوگوں سے فاصلہ رکھتا ہوں۔ چند منٹ بولنے کے لیے بڑی بڑی فیسیں لیتا ہوں۔کتابی باتیں کرتا ہوں۔محفلوں میں،تقریبات میں اپنے تعلقات،اپنی کارکردگی بیان کرتا ہو۔ایسا شخص اچھا کہانی باز،دیہاڑی باز تو ہو سکتا ہے لیکن وہ  رہبر قوم نہیں ہو سکتا۔کتابوں کے رٹے لگا کے موٹیوشنل سپیکر بننے والے  دانشوروں کی باتوں سے چند لمحوں کے لیے کچھ لوگ متاثر ہوسکتے ہیں لیکن عملی میدان میں اس کی باتوں کو اپنانا مشکل تر کام ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگوں کے ذہنوں کو روشن کرنے یا ایک علم دوست اور باشعور معاشرے کی تعمیر میں کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ ایسے لوگ محض ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مصروف عمل ہیں۔دانشور تو لوگوں کے دلوں میں امید،یقین اور حوصلہ پیدا کرنے والا ہوتا ہے ۔بدلتے وقت کے ساتھ سوچ،فکر اور زندگی گزارنے کے نت نئے رستے بتانے والا ہوتا ہے ۔شخص پرستی کی بجائے میرٹ پر راہنما منتخب کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔نظام میں مثبت تبدیلی کے لیے ذہن سازی کرتا ہے ۔وہ لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ کوئی نظام فکر اگر جامد ہو جائے تو عقیدے کا روپ دھار لیتا ہے۔ رواں دواں اور متحرک فکر وہی ہوتی ہے جس سے اختلاف کیا جا سکے۔ تقدس و عقیدت اختلاف سے روکتے ہیں۔ کہ آنے والے زمانے اپنے عہد کی فکر میں ایجاد و اختراع کے ذریعے جدت پیدا کرتے رہیں۔تبدیلی ناگزیر ہے، اس کا ہونا ہی ہمیں ہر لمحہ بہتر یا بدتر کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔ بعض لوگ تبدیلی سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انھیں ہی سب سے زیادہ اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تبدیلی اپنے ساتھ ڈھیروں غم، نا سمجھ آنے والی حقیقت، اور ہر حال میں آگے بڑھ جانے کا عہد  لے کر آتی ہے۔ تبدیلی کا ہونا ہی ہماری زندگی میں واحد ایسا ایڈوینچر ہے جس کے بعد ہم بہت سی چیزوں کو بھول جاتے ہیں، بہت سی یاد رکھ لیتے ہیں اور بہت سی کو یونہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یاد رکھیے گا!جب آپ کُند ذہن لوگوں اور گھسے پٹے نظریات میں وقت گزارتے ہیں تو آپ پر اُن کا رنگ چڑھنے لگتا ہے۔ دماغی نشوونما رُک جاتی ہے، کوشش کریں نئے لوگوں سے ملیں، نئے نئے تعلقات بنائیں، سفر کریں،کتابیں پڑھیں تاکہ آپ مختلف تہذیبوں، روایات، اصولوں اور نظریات سے آشنا ہو سکیں، اور ایک باعمل،باکردار اور روشن خیال انسان بن کر ایک بہتر زندگی جینے کی کوشش کرتے ہوئے معاشرے میں ایسی مثال بنیں جس دیکھ کے لوگ آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آنے والی نسل کوبہتر ماحول دے سکیں۔

ای پیپر دی نیشن