ہماری تاریخی غلطیاں اور اثرات

پاکستان اور عوام دوست دانشور متفق ہیں کہ ہم نے تاریخ کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ انہی غلطیوں کو بار بار دہراتے جا رہے ہیں۔ ہماری پہلی سنگین اور بنیادی غلطی یہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد صوبوں کو خود مختاری نہ دی گئی۔ 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں شیر بنگال فضل حق نے جو قرارداد پیش کی تھی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا اس میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ جو صوبے پاکستان میں شامل ہوں گے ان کو صوبائی خود مختاری دی جائے گی۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد متحدہ ہندوستان میں جو عبوری حکومت قائم کی گئی اور جس میں لیاقت علی خان وزیر خزانہ نامزد ہوئے اس حکومت میں وفاق کے پاس صرف دفاع، خارجہ امور، خزانہ اور مواصلات کے شعبے رکھے گئے تھے اور صوبوں کو خود مختار بنایا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب صوبے پاکستان کی فیڈریشن کا حصہ بن گئے تو ان کو صوبائی خود مختاری دینے سے گریز کیا گیا۔ مضبوط مرکز اور سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر صوبوں کو قرارداد پاکستان کے مطابق اختیارات دینے سے انکار کیا گیا۔ مقتدر قوتوں کے اس غیر منصفانہ اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے صوبوں میں نفرت تعصب اور احساس محرومی کے جذبات نے جنم لیا۔ علیحدگی پسند رجحانات کو تقویت ملی اور پاکستانیت کے جذبات مستحکم نہ ہوسکے۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ اپنی سیاسی ساکھ ہی کھو بیٹھی اور دو سال کے بعد  ہونے والے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے اس کا صفایا ہو گیا۔ صوبوں کو عملی طور پر خود مختاری 2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت دی گئی۔ اگر قیام پاکستان کے بعد صوبوں کو بروقت خود مختاری دے دی جاتی تو آج پاکستان سیاسی معاشی اور سماجی مسائل کا شکار نہ ہوتا۔ تاریخ کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد ازادی کے تقاضوں، عوام کے مزاج، مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق نیا پاکستانی نظام ہی وضع نہ کیا گیا۔ قائد اعظم نے شدید بیماری کے باوجود زیارت سے کراچی پہنچ کر سٹیٹ بینک بلڈنگ کی عمارت کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں اپنا معاشی نظریہ پیش کیا اور کہا کہ دنیا میں دو نظام رائج ہیں، ایک کیمونزم ہے اور دوسرا کیپیٹلزم ہے۔ یہ دونوں نظام عام آدمی کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے لہذا ہمیں نیا نظام تشکیل دینا پڑے گا جو اسلام کے سنہری اصولوں کے عین مطابق ہو۔ امریکہ اور برطانیہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان کا نظام جوں کا توں رہے تاکہ سامراجی مفادات محفوظ رہیں۔ پاکستان کے جرنیل، بیوروکریٹس، بڑے جاگیردار اور تاجر امریکہ اور برطانیہ کے سہولت کار بن گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں کا نظام آج بھی چل رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان آج 77 سال بعد بھی معاشی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ انگریزوں کے استحصالی نظام کی وجہ سے پاکستان کے عوام سماجی انصاف مساوی مواقع سے محروم ہیں اور قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو رہی جن کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ انگریزوں کے نظام کی وجہ سے اشرافیہ نے مافیاز کی شکل اختیار کر لی ہے۔
ایک اور تاریخی غلطی یہ ہے کہ آزادی کے بعد دفاع کے لیے جو فوج تیار کی گئی اس کا سائز پاکستان کی دفاعی ضرورتوں سے کہیں زیادہ تھا۔ 1957ء  میں پاکستان میں امریکہ کے سفیر مسٹر لونگ لے نے چھ ماہ تک پاکستان کا مکمل جائزہ لینے کے بعد امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ایک خفیہ مراسلہ سائفر ارسال کیا  اور تحریر کیا کہ امریکہ پاکستان میں جس تعداد میں فوج تیار کر رہا ہے وہ پاکستان کی دفاعی ضرورتوں سے کہیں زیادہ ہے پاکستان اتنی بڑی فوج کا متحمل نہیں ہو سکے گا اور اس کے مالی بوجھ سے ریاست کے دوسرے ادارے مسلسل دباؤ کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ خفیہ مراسلہ مارکیٹ میں دستیاب کتاب ’’خفیہ پیپرز‘‘ میں شامل ہے۔ پاک فوج کے علاوہ پاکستان کا اور کوئی ادارہ معیاری اور مثالی نہیں بن سکا جب کہ پاک فوج کا شمار دنیا کی دس بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ مضبوط دفاع پر کمپرومائز کیے بغیر پاک فوج کے حجم پر حب الوطنی کے تقاضوں کے مطابق غور و خوض کیا جائے۔ ایک اور تاریخی غلطی یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد  پاک فوج نے سیاست میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ پاکستان کے پہلے مسلمان آرمی چیف جنرل ایوب خان امریکہ اور برطانیہ کی ڈکٹیشن کے مطابق سیاست میں بھرپور مداخلت کرتے رہے۔ سیاست دانوں کی کمزوریوں کی وجہ سے وہ 1954ء میں وفاقی کابینہ میں وزیر دفاع بھی بن گئے انہوں نے 1958ء  میں مارشل لا نافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ فوج کی مداخلت کی وجہ سے جمہوری اور سیاسی ادارے مضبوط اور مستحکم نہ ہو سکے۔ پاکستان کی ایک اور تاریخی غلطی یہ ہے کہ ہم 1947ء سے  1956ء تک اپنا آئین ہی نہ بنا سکے اور پاکستان کو 1935ء کے ایکٹ کے مطابق چلایا گیا جس میں تحریر تھا کہ گورنر جنرل برطانیہ کے بادشاہ کا وفادار ہوگا۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح پکے ڈیموکریٹ تھے۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ دستور ساز اسمبلی پاکستان کا آئین تشکیل دے۔ آئین میں تاخیر کی وجہ سے حکومتیں ٹوٹتی اور بنتی رہیں۔ پہلے آٹھ سالوں میں سات وزیراعظم نامزد کیے گئے۔ ہندوستان کے وزیراعظم نہرو نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنی حکومتیں پاکستان میں بدل جاتی ہیں۔ افغان جنگ میں شرکت ہماری تاریخ کی سنگین غلطی تھی جس کے بعد پاکستان میں ہیروئن کلاشنکوف اور جہادی کلچر پھیلا، شدت پسندی اور دہشت گردی عروج پر پہنچ گئی۔ افغان جنگ کا خمیازہ آج بھی ریاست اور عوام دونوں بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی قانون کی عملداری کو یقینی بنایا گیا۔ آج بھی پاکستان میں طاقت کا قانون ہے اور قانون کی طاقت کہیں  نظر نہیں آتی۔ ریاست کی بنیاد ہمیشہ تعلیم اور صحت پر رکھی جاتی ہے۔ پاکستان میں کبھی تعلیم اور صحت پر پوری توجہ ہی نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج تعلیم اور صحت دونوں بزنس بن چکے ہیں۔ تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور کروڑوں عوام کو صحت کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ کروڑوں بچوں کو پوری خوراک نہیں مل رہی جو ان کی نشوونما کے لیے لازمی ہے۔  ایک اور بڑی اور سنگین غلطی یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک اردو کو قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا جس میں بنگال کے منتخب نمائندے بھی موجود تھے۔ دو سال کے بعد اسی دستور ساز اسمبلی نے بنگالی زبان کو بھی قومی زبان ڈیکلیئر کر دیا۔ پاکستان کی کسی حکومت نے بھی قومی زبان کے سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی بلکہ آئین کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔ انگریزی زبان کو استحصال کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا اور اس طرح سامراجی مفادات کا تحفظ کیا گیا۔ اگر اردو کو قومی سرکاری اور دفتری زبان بنا دیا جاتا تو آج پاکستان شعور اور بیداری کے حوالے سے بہتر مقام پر ہوتا افسوس ہم نے اردو کو قومی زبان تسلیم نہ کر کے ترقی کا راستہ روکا۔ قائد اعظم نے اپنے 11 اگست 1947ء کے دستور ساز اسمبلی کے  خطاب میں خبردار کیا تھا کہ کرپشن ایک زہر ہے جس کو روکنے کے لیے عبرت ناک سزاؤں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے کسی حکمران نے کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے اور آج صورتحال یہ ہے کہ کرپشن کلچر یعنی تہذیب بن چکی ہے۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن