فوج اور جماعت اسلامی میں باہمی تعلقات ِ کار
پاکستان میں فوج اور سیاسی جماعتوں کے باہمی تعلقات میں تناﺅ ہی نظرآتا رہا ہے ۔مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور فوج کے درمیان کبھی کشمکش نظر نہیں آئی۔ بلکہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ آگے بڑھ کر ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آئینی طور پر یہ فریضہ فوج کے ذمہ ہے اور یہ فریضہ ہر سیاسی جماعت کو بھی ادا کرنا چاہئے تھا۔ صدرجنرل ایوب خان کے مارشل لاءدور میں جماعت اسلامی کا کوئی لیڈر نااہل قرارنہیں دیا گیا۔ان دنوں نااہلی کیلئے ایبڈو کا قانون نافذ تھا۔ جس سے صرف جماعت اسلامی ہی بچی رہی۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں بھارت نے پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت کی۔ تو پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی۔ جنگی ترانے لکھنے والوں میںجماعت اسلامی کے شاعر افضال صدیقی و دیگر بھی شامل تھے۔ فیلڈمارشل ایوب خان پاک بھارت مذاکرات کیلئے تاشقند روانہ ہوئے توائرپورٹ پر ان کو رخصت کرنے والوں کی قطارمیں دیگر قومی قائدین کے ساتھ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒبھی کھڑے تھے۔1971ءمیں مشرقی پاکستان میں عوامی بغاوت رونما ہوئی اور بھارت نے باغیوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے کےلئے کولکتہ میں ایک دہشت گردی کیمپ قائم کیا۔ ان باغیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کےلئے جماعت اسلامی کی دو ذیلی تنظیموں البدراور الشمس کے کارکن میدان ِ عمل میں نکل آئے۔ انہوں نے مکتی باہنی کے نام پر قائم بھارت نواز باغیوں سے نمٹنے کیلئے تن من دھن کی بازی لگادی ۔پاک فوج بھی مکتی باہنی سے نمٹنے میں مصروف تھی۔ جماعت اسلامی کے اشتراک ِ عمل کی وجہ سے فوج کومشرقی پاکستان میں قیامِ امن میں سوفیصد کامیابی حاصل ہوگئی ۔
مشرقی پاکستان کی خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے ، ان میں جماعت اسلامی کے امیدوار بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوئے اور یوں وہ صوبائی کابینہ میں وزراءکی حیثیت سے بھی فرائض ادا کرنے لگے۔ جماعت اسلامی کو فوج کے ساتھ یہ اشتراکِ عمل بہت بھاری ثابت ہوا۔ انکے کئی لیڈروں کیخلاف بنگلہ دیش کی حکومت نے بغاوت کے مقدمات قائم کئے۔ گذشتہ چند برسوں میں بیگم حسینہ واجد کی حکومت نے پاک فوج کا ساتھ نبھانے والے جماعت اسلامی کے کئی لیڈروں کو پھانسی کی سزائے موت سنائی اور دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ان رہنماﺅں کو تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔ مورخ جب کبھی جنگ1971ءکی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو صفحات کے صفحات مکتی باہنی کے کالے کرتوتوں سے سیاہ ہوجائیں گے۔ مکتی باہنی نے بنگالی عوام پر وہ ظلم و ستم کیا کہ خدا کی پناہ ۔ انہوں نے عوامی چوکوں کو پھانسی گھاٹ میں تبدیل کردیا۔ خواتین کواجتماعی بداخلاقی کا نشانہ بنایا گیا۔ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں آج بھی وہ اجتماعی قبریں موجود ہیں جو مکتی باہنی کے ظلم و ستم اور بربریت کا ایک بیّن ثبوت ہیں۔
فوج اور جماعت اسلامی کے مابین اشتراکِ عمل اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب سوویت یونین کی افواج نے افغانستان کو روندنے اور بالآخر بلوچستان میں گرم پانیوں کی بندرگاہ گوادر پر قبضہ کرنے کی ٹھانی۔ سوویت یونین افواج کیخلاف مجاہد ین کی تنظیموں نے افغانستان کا دفاع کیا ۔ جماعت ِ اسلامی نے بیس سال پر محیط سوویت یونین کیخلاف اس افغان جہاد میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیااوراپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔گلبدین حکمت یار اور جماعت اسلامی کے درمیان گہری قربت دیکھنے میں آئی ۔ باقی افغان جہادی تنظیموں کےساتھ بھی جماعت اسلامی پاکستان کے قائدین و رہنماﺅں نے بھرپور تعاون کیا۔ اس عظیم جہادِ افغانستان کے نتیجے میں روسی افواج کو واپسی کی راہ لینا پڑی۔ افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد سب سے پہلے مشرقی یورپ کے ممالک سوویت یونین روس کے چنگل سے نکلے ، دیوار برلن کو ہتھوڑوں سے گرادیا گیا۔ تبدیلی کی تیز رفتار ہوائیں چلیں اور سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے ۔ یہ تھا جہادِ اسلامی کا ایک بہت بڑا ثمر۔ جماعت اسلامی نے جہاد کا یہ فریضہ قاضی حسین احمد ؒ کی قیادت میں ادا کیاتھا۔قاضی حسین احمدؒ جیسے مجاہدقوموں کو روز روز نصیب نہیں ہوتے۔ 6جنوری کو ان کا یوم وفات تھا،اللہ کریم انہیں غریق رحمت کرے۔ آمین
کشمیر میں بھارتی فوج 1947ءسے ظلم و جبر اور سفاکیت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے ،افغان جہاد کے بعد پوری دنیا میں آزادی کی لہریں اٹھیں تو مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے گلی کوچوں میں نکل آئے ۔ پاکستان کشمیر کے مسئلے کا ایک براہ راست فریق ہے ۔ پاکستانی مسلمان مذہبی ،ثقافتی،جغرافیائی اور تاریخی رشتوں کی وجہ سے کشمیری بھائیوں سے قلبی تعلق رکھتا ہے۔ کشمیری نوجوانوں نے بھارتی فوج کےخلاف جہادکا آغاز کیا تو جماعت اسلامی اس جہاد میں دامے درمے سخنے بھرپور تیاریوں کے ساتھ کود پڑی۔فوج اور جماعت اسلامی کے مابین اشتراک ِ عمل پر نظر ڈالی جائے تو یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ جنرل ضیاءالحق کی کابینہ میں جماعت اسلامی کے چاروزراءکو شامل کیا گیا۔ منصوبہ بندی کمیشن کا چیئرمین بھی جماعت کے ایک سکالر کو لگایا گیا۔ اس وقت جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمدؒ اور جنرل ضیاءالحق کے مابین گہری قربت کے رشتے قائم تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں قومی انتخابات ہوئے تو ایم ایم اے نے صوبہ خیبرپختونخواہ میں اکثریتی ووٹ لے کر حکومت بنائی ، اس اتحاد میں جماعت ِ اسلامی بھی شامل تھی۔ مشرف دور میں دہشت گردی کے فتنے نے سر اٹھایا اور افغانستان پر امریکی اور نیٹو افواج نے قبضہ جمایا ،اس امر کے باوجود کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف اس جنگ میں امریکہ کا حلیف تھا، لیکن امریکہ کے اپنے مفادات اور تحفظات تھے،وہ پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملے کرتا رہا، میزائل داغتا رہا، جس پر اس وقت کے امیرجماعت اسلامی سید منورحسن نے کہا کہ امریکہ کے ہاتھوں جس شخص کی موت واقع ہوگی، وہ شہادت کے مرتبے پر سرفراز ہوگا۔ سید منور حسن کے اس بیان کو توڑمروڑکر پیش کیا گیا اور فوج اور جماعت کے مابین دوریاں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
جنرل قمرجاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کیلئے پارلیمنٹ میں ووٹ کا مرحلہ درپیش ہوا تو جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق صاحب نے اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ جس سے یار لوگوں نے ایک بار پھر فوج اور جماعت اسلامی کے مابین ان بن پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ مگر جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے آرمی چیف کی تقرری کے فیصلے میں ایک واضح مﺅقف اختیارکیا اور اسے اپنے منشور کا حصہ بھی بنالیا کہ نیا آرمی چیف مقرر کرتے وقت صرف اور صرف سنیارٹی کے اصول کومدنظر رکھا جائے۔ اور اس ضمن میں ایک ایس اوپی وضع کرلیا جائے کہ اگر کوئی میڈیکل بورڈ کا جنرل سنیارٹی پر آتا ہے اور ظاہر ہے،اسے آرمی چیف مقررنہیں کیا جاسکتا، تو پھر آرمی چیف کی تقرری کیلئے ایک معیار طے کرلیا جائے کہ کس معیار پر پورا اترنے والا جنرل آرمی چیف مقرر کیا جاسکتا ہے ۔ اس معیار کا جائزہ لیکر خود جی ایچ کیو یہ فیصلہ کرے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا۔ اگر سیکنڈلیفٹیننٹ سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک کی تقرری فوج خود کرتی ہے تو پھر ایک جنرل کی تقرری کا حق بھی خود فوج کے حوالے کردینا چاہئے۔
کوئی ایک ماہ پہلے جماعت کے امیرسراج الحق صاحب نے یہ بیان دیا کہ جنرل باجوہ کی جگہ نئے آرمی چیف کو مقررکرتے ہوئے صرف سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھا جائے ،اس بیان پر ایک ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی،اوریہ کہا گیا کہ یہ سراج الحق کا ذاتی بیان ہے ۔ جس پر سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیرالعظیم کو میڈیا پر وضاحت جاری کرنا پڑی کہ یہ محض سراج الحق کا ذاتی بیان نہیں، بلکہ یہ جماعت کا پالیسی بیان ہے اور جماعت کے منشور میں یہ مﺅقف شامل ہے ۔تاکہ نیا آرمی چیف مقررکرتے وقت وزیراعظم کو خوردبین سے کوئی وفاداریا رشتہ دارتلاش نہ کرنا پڑے۔ اس وضاحت کے بعد وہ گرد بیٹھ گئی جو سراج الحق کے اوپر اڑانے کی کوشش کی گئی۔قصہ مختصر، جماعت اسلامی اپنے آپ کوپاک فوج کی طرح ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی و آئینی سرحدوں کا محافظ تصور کرتی ہے اور اس نے ہمیشہ اپنے عملی کردار سے اس تصور کو نبھایا ہے ۔