جمعرات 25 اپریل4 202ء کو ہمارے بہت ہی پیارے دوست اور شعبہ طب کی ہر دل عزیز شخصیت پروفیسر ارشاد حسین قریشی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم ایک بہترین استاد ،اعلی پائے کے فزیشن، منتظم اور انسانیت کی اعلیٰ صفات کی حامل شخصیت تھے جن کے داغ مفارقت دینے سے شعبہ طب سے متعلقہ اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ افراد، جو ان کو جانتے تھے بہت غمگین ہیں اور شدت جذبات سے ان کی آنکھیں پر نم ہیں۔
میرا اور پروفیسر ارشاد صاحب کا تعلق تقریبا چار دہائیوں پر محیط ہے۔ ایف ایس سی کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں جو پہلے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج تھا، مرحوم ہم سے ایک سال سینیئر تھے اور ہمارے دوست پروفیسر محمد امجد اور پروفیسر غلام مجتبیٰ کے کلاس فیلو تھے۔ بعد ازاں ہم دونوں پنجاب پبلک سروس کمیشن سے اکٹھے سلیکٹ ہوئے اور علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں بطور ڈیمانسٹریٹر اناٹمی ڈیپارٹمنٹ میں تعیناتی ہوئی اور ہم دونوں وہاں ہاسٹلز کے اسسٹنٹ وارڈن بنے۔پروفیسر ارشاد حسین قریشی صاحب بہت محنتی انسان تھے۔علم کے ساتھ ساتھ حلم بھی ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ شروع سے ہی طالب علموں میں بہت مقبول تھے۔ یہ آپ کی انتھک محنت کا ثمر تھا کہ ان دنوں کا مشکل ایف سی پی ایس پارٹ ون کا امتحان فرسٹ اٹیمپٹ میں پاس کر لیا اور ہم دونوں کی پارٹ ون کلیئر کرنے کے بعد پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے لیے میو ہاسپٹل میں پوسٹنگ ہوئی۔آپ نے شعبہ میڈیسن کو منتخب کیا اور میں نے شعبہ سرجری میں سفر کا آغاز کیا۔ میو ہسپتال میں تربیت کے چار سال اور ایمرجنسی وارڈ میں ان کی مریضوں کے لیے دستیابی مثالی تھی۔مریضوں کے لیے وہ ایک مسیحا کا درجہ رکھتے تھے۔دکھی انسانیت کی خدمت اور مسیحائی کا یہ سلسلہ انہوں نے زندگی بھر جاری رکھا۔آخری ایام میں ناسازی طبیعت کے باوجود مریضوں کی خدمت میں وقفہ نہیں آنے دیا۔ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ انہوں نے مسلسل رابطہ رکھا اور صحیح معنوں میں دوستی کا حق نبھایا۔ ان کے دوستوں اور کلاس فیلوز میں پروفیسر محمد امجد ،پروفیسر غلام مجتبیٰ، پروفیسر اسد اسلم خان ،ڈاکٹر افتخار احمد، ڈاکٹر سرفراز محمود میر ،ڈاکٹر سعید احمد، پروفیسر عامر محمود اعجاز،پروفیسر طاہر جمیل اور پروفیسر عارف تجمل سمیت سینکڑوں افراد بھیگے ہوئے دل اور نمناک آنکھوں کے ساتھ مرحوم کی روح کو ایصالِ ثواب کے لئے دعا گو ہیں۔
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا تیرے ساتھ ایک دنیا تھی
ہم سینئر رجسٹرار، اسسٹنٹ پروفیسر ،ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر بھی اکٹھے رہے۔ایک وقت میں وہ شعبہ میڈیسن کے سربراہ ایسٹ میڈیکل وارڈ کے ہیڈ اور ہم سرجری اور نارتھ سرجیکل وارڈ کے ہیڈ تھے۔ ایک بے مثال اور لازوال تعلق اور محبت کا رشتہ قائم رہا۔ جب میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور کا جون 2018 میں وائس چانسلر بنا تو پروفیسر ارشاد صاحب یونیورسٹی کے رجسٹرار اور بوائز ہاسٹلز کے چیف وارڈن تھے۔کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے لیے ان کی بیشمار خدمات ہیں جن کو اس وقت تحریر میں لانا دشوار ہے۔ان کے شاگرد ان سے بہت محبت کرتے تھے یہ سب ان کے لیے اب صدقہ جاریہ ہیں ان کی نیک اور بہترین اولاد اور مریضوں کی دعائیں ان کی اخروی اور ابدی زندگی کا اثاثہ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔
مرض کی تشخیص کے بعد آپ شوکت خانم میموریل ہسپتال میں علاج کے لیے داخل ہوئے۔ دوران علاج ہم وہاں موجود رہے اور ان کے معالجین سے بھی مسلسل رابطے میں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے پروفیسر ارشاد صاحب کو بڑا حوصلہ عطا کیا تھا۔ بہت ہمت اور صبر کے ساتھ بیماری کا سفر طے کیا۔ دوران مرض صبر کا اللہ تعالیٰ نے بڑا اجر رکھا ہے۔ ایک جنتی شخص ہم سے رخصت ہو گیا۔کیا بہترین انسان تھے۔بیماری کے باوجود مریضوں کی خدمت ،شاگردوں کی تربیت ،لیکچرز اور سیمینارز میں شرکت کا سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا اور گزشتہ ماہ میں منعقد ہونے والے ایف سی پی ایس میڈیسن پارٹ ٹو کے امتحان میں بڑے احسن طریقے سے کنوینر کی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ ان کے وصال سے دو روز قبل میں آب زمزم لے کر حاضر ہوا۔ خیال تھا کہ یہ متبرک پانی ان کے جسم کا حصہ بن جائے۔ بڑے حوصلے سے ملے اور بتلایا کہ مرض پھیپھڑوں تک پھیل گیا ہے ،جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ بطور فزیشن انہیں ہر چیز کا ادراک تھا مگر کمال کا حوصلہ تھا کہ اس جان کنی کے عالم میں بھی مجھے کہا کہ ’’بیٹھیں ،آپ کی خدمت کریں‘‘۔
درد کی شدت دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ شوکت خانم ہسپتال کے Palliative Care Physician ڈاکٹر ہارون حفیظ کی رائے بھی لی جائے۔ ان سے رابطہ ہوا اور اگلے دن ان کی ٹیم نے آکر معائنہ بھی کیا۔ مگر دنیاوی زندگی عارضی، مختصر اور ختم ہونے والی ہے۔ اصل توآخرت ہے۔ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ،راحت اور چین والی۔
پروفیسر ارشاد حسین قریشی نے بہترین زندگی گزاری۔مریضوں کی دعائیں، بہترین اولاد ،شاگردوں کا صدقہ جاریہ اور بیماری کے دوران کمال کا صبر۔ یقینا اب وہ جنت الفردوس میں راحت اور سکون میں ہوں گے اور ہمیں پیغام دے رہے ہوں گے کہ ہم بھی آخرت کی تیاری کر لیں کوئی علم نہیں کہ کب زندگی کی شام ہو جائے۔
پروفیسر ارشاد حسین کے ایصال ثواب کے لیے قران خوانی کا اہتمام کیا گیا جس میں شعبہ طب سے وابستہ بے شمار لوگ تشریف لائے جو بھیگے دل کے ساتھ ان کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کر رہے تھے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ان کی زوجہ محترمہ، اولاد، بھائی بہنوں اور خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
کسی کو دنیا کی بڑی ایٹمی طاقت کو دھمکانے کی اجازت نہیں دیں ...
May 10, 2024 | 20:15