عالمی سطح پر جن ممالک میں سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے ان ممالک کو عالمی مالیاتی ادارے اپنی کڑی شرائط کے شکنجے میں جکڑ کر تگنی کا ناچ نچواتے ہیں۔ پاکستان کے سیاست دان اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف )ہمیں تگنی کا ناچ نچوا رہا ہے،اک مدت ہوئی تگنی کا ناچ ناچتے لیکن آنگن ٹیڑھے کا ٹیڑھا ہی رہا۔ اب پاکستان کی معیشت سرعت کے ساتھ زوال پذیر ہے جو کہ ہم اپنی آنکھوں سے خاموش تماشائیوں کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ معیشت کی بد حالی میں سیاسی عدم استحکام کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔
درحقیقت گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو اوسطاً 3.4 فیصد سالانہ رہ گئی ہے جو کہ مزید کم ہو رہی ہے۔ شرح نمو کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صرف چند لوگ ہی بہتر زندگی کی آسائشیں حاصل کئے ہوئے ہیں جب کہ ملک کی اکثریت غربت اور بد حالی کا شکار ہے۔ فی کس آمدنی کا فرق بڑھ رہا ہے لیکن ہر آنے والی حکومت معیشت کو بہتر بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی، پسِ پردہ عوامل جتنے بھی عوام سے مخفی رکھے جائیں ،لیکن حقیقت یہی ہے کہ حکمرانوں نے ملکی اثاثہ جات ،معاشی پالیسی آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے اداروں کے پاس گروی رکھ دی ہے۔
ملکی اثاثوں کی بدولت قرض لیا جا رہا ہے لیکن نجکاری پر زور ہے جو کہ عالمی مالیاتی اداروں کی ایک شاطرانہ چال ہے۔ نجکاری کے بعد ریاست کے پاس اپنے اثاثے تو ہوں گے نہیں۔ ایسی صورت میں قرض لینے کی صورتحال کیا بنے گی ؟ یہ ایک لمحہء فکریہ ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ ، بلند شرح سود ، غیر منصفانہ ٹیکسیشن ، مہنگی بجلی گیس اور پٹرول نے عالمی مارکیٹ میں ہماری صنعتوں کو آگے بڑھنے سے یا مقابلے کی صلاحیت سے اپاہج کر دیاہے ، جس سے برآمدات میں کمی کی وجہ سے صنعتی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے، اس کے بر عکس زرعی پیداوار سطحی رہ گئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ملک کا زیادہ انحصار خوراک درآمد کرنے پر بڑھ رہا ہے ، معاشی تنزلی کا سلسلہ کیسے اور کب رکے گا ، کیونکہ پاکستان مزید کئی سالوں تک آئی ایم ایف کا دست نگر رہے گا۔ اب عالمی بینک نے دس سال کے لئے رولنگ کنٹری فریم ورک پلان پر اتفاق بھی کر لیا ہے۔ غربت، بیروزگاری اورقرضوں میں اضافہ ملک کی معیشت کو گہری کھائی میں لے جا رہا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد میں (آئی ایس ایس آئی) نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے موضوع پر ایک پبلک ٹاک کا اہتمام کیا ، مقررین میں سابق سیکرٹری جنرل وزارت خزانہ اور اقتصادی امور پاکستان کے علاوہ دوسرے مقررین نے پاکستان کی معیشت کو شدید معاشی عدم توازن کے پیش نظر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادا ئیگیوں کے توازن کے بحران ، زرمبادلہ کی کمی اورسب سے بڑھ کر مالیاتی بے ضا بطگیوں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ مالیاتی محرکات کے سلسلے کے باوجود ملکی معیشت تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ پاکستان دوہرے خسارے کے چیلنج سے نبرد آزماء ہے ، جس میں مالیاتی اور کرنٹ اکائونٹس شامل ہیں ، جو کہ قرضوں کا جال ہیں۔
مہنگائی ، غذائی عدم تحفظ کے بحران اور بے روز گاری نے پہلے سے موجود چیلنجوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ان عوامل نے ملک کی ترقی کے حصول کے لئے قوم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں، ضروری اصلاحی اقدامات پر عمل در آمد بشمول سماجی شعبوں کی جانب وسائل کی ری ڈائریکشن اورمالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے ہے ،جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی کا باعث یہی عوامل ہیں، حالیہ آپٹیمس کیپیٹل مینجمنٹ (او سی ایم ) کی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ 1965 ء سے 1990 ء تک پاکستان کی معاشی نمو انڈیا کے مقابلے میں کافی بہتر تھی ، 1991 ء اور 1992 ء میں شرح نمو 6 فیصد تک تھی ، لیکن اسکے بعد پاکستان کی شرح نمو مسلسل زوال کا شکار ہے ، جس کی وجہ سے دن بہ دن آمدنی میں فرق، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے ، دوسری طرف انڈیا کی معاشی نمو 0 199 ء میں پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہوئی اور وہ پاکستان کو پیچھے چھوڑ نے میں کامیاب ہوا ، انڈیا کی معاشی نمو کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایشیائی ترقیاتی آئوٹ لْک میں رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام معاشی بحالی کے لئے چیلنج ہے۔ جون 2024 ء کو ختم ہونے والے مالی سال 24.2023 ء کے دوران توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 1.9 فیصد تک پہنچ جائے گی ، اسی کے ساتھ پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2025 ء میں2.8 فیصد تک ہو گی ، ایشیائی ترقیاتی بینک نے امید ظاہر کی کہ مثبت نمو کی طرف واپسی زراعت اور صنعت دونوں میں بحالی کے علاوہ نجی شعبے کی سرمایاکاری میں بحالی سے آئے گی ، جو اصلاحاتی اقدامات پر پیش رفت اور ایک نئی اور زیادہ مستحکم حکومت کے قیام سے منسلک ہے ،رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت سیاسی غیر یقینی کی صورت حال اور سیلاب کے باعث سکڑ گئی ہے ، لہذا پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے لئے عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک پر انحصار کرنا پڑے گا ، جب کہ ملک میں رواں مالی سال میں مہنگائی 25فیصد کی اونچی سطح پر رہنے کا اندازہ ہے، پاکستان کو 2023 ء میں 2 ارب 35 کروڑ ڈالرایشائی ترقیاتی بینک کی جانب سے دئے گئے۔
موجودہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امید ظاہر کی ہے کہ آئی ایم ایف مشن کا دورہ مئی کے وسط میں متوقع ہے، قرض پروگرام کے بعد اضافی فنانسنگ کی درخواست کا بھی پلان ہے ، کیونکہ پاکستان نے ہر سال 25ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے ، اللہ پاکستان کے عوام پر اپنا رحم و کرم فرمائے۔
نیوزی لینڈ کے ایک پیزا ریسٹورنٹ نے ایک عجیب آفر دی ہے کہ پیزا ابھی کھائیں اور بل دیں مرنے کے بعد (آفٹر لائف پروموشن ) اس آفر کو باقاعدہ قانونی معاہدے کی شکل دی گئی ہے جس پر نہ سود ہو گا نہ ٹیکس۔ حکومتِ پاکستان ہر سال 25ارب ڈالر کا قرض دینے کے لئے عوام سے کونسا باہمی معاہدہ کرے گی جس کے تحت عوام مرنے کے بعد بھی عالمی مالیاتی اداروں کے قرض کو اتارنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ حکمران آج اس مثل کہاوت ہیں کہ ’’ کھیتی کرے نہ بنجے جائے ، بدیا کے بل بیٹھا کھائے ‘‘۔
٭…٭…٭
کسی کو دنیا کی بڑی ایٹمی طاقت کو دھمکانے کی اجازت نہیں دیں ...
May 10, 2024 | 20:15