مسلم لیگ (ن) پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں میاں نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی گئی۔ قرارداد کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں اور کارکنوں نے نواز شریف کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔
2017ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے پر میاں نوازشریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا بلکہ انہیں قومی سیاست میں حصہ لینے کیلئے بھی تاحیات نااہل قرار دے دیا جس کی بنیاد پر وہ اپنی پارٹی کی صدارت کیلئے بھی نااہل ہو گئے۔مگر الیکشن بل 2017ء منظور ہونے کے بعد نوازشریف کیلئے دوبار پارٹی کے صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی۔ اب وہ قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہو چکے ہیں اور مسلم لیگ نون کے قائد بھی ہیں جبکہ چارسالہ جلاوطنی اور پارٹی عہدے سے ہٹائے جانے کے باوجود وہ اپنی پارٹی کی تنظیم سازی میں سرگرم عمل رہے اور ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ آج وہ انصاف کی عملداری میں اپنے خلاف تمام مقدمات میں بری ہوکر پوری قوم کے سامنے سرخرو ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) پنجاب کی تنظیم کے اجلاس میں نوازشریف کو ایک بار پھر پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو خوش آئندہی نہیں ایک اچھی روایت کا بھی آغاز ہے۔ امریکہ، برطانیہ، بھارت کی طرح جہاں منتخب پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے، پاکستان میں بھی پارٹی اور حکومت کی قیادت الگ الگ ہاتھوں میں ہو تو حکمران پارٹی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر عوام کی بلاامتیاز خدمت کر سکتی اور سسٹم کو مستحکم بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں مسلم لیگ نون میاں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے باعث پارٹی کی سربراہی میاں نواز شریف کو واپس دینا چاہتی ہے۔ اسی تناظر میں خواجہ سعد رفیق کو پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ دیا جارہا ہے جن کے پاس اس وقت کوئی حکومتی منصب موجود نہیں۔ دیگر جماعتوں کو بھی اس مستحسن روایت کو آگے بڑھانا چاہیے۔
"حادثہ ایک دَم نہیں ہوتا"۔
May 10, 2024