شخصیت پرستی ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ ریاستی اداروں میں بھی اور سیاسی جماعتوں کو بھی اسی مسئلے نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ریاستی اداروں میں یہ مسئلہ اس طرح سے ہے کہ کسی بھی ادارے میں کوئی سربراہ ہوتا ہے تو وہ ادارے کو آئین و قانون کے مطابق چلانے کے بجائے اپنی سوچ، خیالات، ماضی، تجربات، واقعات و مشاہدات کی روشنی میں چلانا چاہتا ہے جب کسی بھی ادارے کا سربراہ یہ کام کرتا ہے تو نظام کو تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ کیونکہ ادارے آئین و قانون کے تابع ہوتے ہیں افراد آتے اور جاتے رہتے ہیں لیکن ادارے اور انہیں چلائے جانے کے قوانین وہیں رہتے ہیں سو ہونا تو یہ چاہیے کہ ادارے ہر حال میں آئین و قانون، قواعد و ضوابط کے مطابق چلائے جائیں لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو اداروں میں استحکام ہے، نہ ملک میں قیادت کرنے والے افراد، ایک ٹیم کی حیثیت سے کام کرنے والے، اجتماعی سوچ اور کوششیں کرنے والے لوگ نظر آتے ہیں۔ سب خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور جس کو موقع ملتا ہے وہ اپنی مرضی سے کام چلاتا ہے۔ حالانکہ ہمیں ضرورت نظام کو مضبوط کرنے کی ہے۔ شخصیات کو نظام کے تابع رہ کر مخصوص وقت میں اپنا کام کرنا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کی بات ہو تو یہاں یہ مسئلہ اور بھی شدید ہے ملک میں تین بڑی سیاسی جماعتیں، صوبائی جماعتیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں ہر جگہ شخصیت پرستی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں دہائیوں سے ایک ہی سربراہ ہے وہی سیاہ و سفید کا مالک ہے، بڑی بڑی قد آور شخصیات پہلے ایک شخص کی سربراہی میں کام کرتے ہیں پھر اس کے بچوں کو قائد بنا کر سیاست کرتے ہیں۔ یہی سوچ اور فیصلے ثابت کرتے ہیں کہ آبادی کے تناسب سے ہماری سیاسی جماعتوں کے ووٹرز تو بڑھتے رہے، سیاسی جماعتیں وقت کے ساتھ ساتھ سکڑتی اور پھیلتی رہیں لیکن ہر سیاسی جماعت اپنے ووٹرز کو ذہنی طور پر آزاد بنانے کے بجائے ذہنی غلامی میں دھکیلنے میں مصروف رہی۔ اگر آج قوم میں ذہنی آزادی نہیں ہے، شعور کی کمی ہے تو اس کی بڑی وجہ سیاسی قیادت کا سیاسی جماعت کو ملک میں پھیلانے کے بجائے طاقت کا مرکز اپنے گھر کو بنائے رکھنے کی حکمت عملی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ یہ نہیں چاہتا کہ وہ ویٹو کی طاقت کو سرنڈر کرے۔ ملک کے نوجوانوں کو لیڈرز بنانے سے روکنے میں یہ بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ بہرحال اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے بہت اہم بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ایک چیف جسٹس ہمیں ایک طرف لے جاتا ہے اور دوسرا چیف جسٹس دوسری طرف، جب تک افراد سے نکل کر نظام کی طرف نہیں آئیں گے معاملہ اسی طرح چلے گا۔ نظام انصاف کی مضبوطی کے بغیرکوئی نظام نہیں چل سکتا، جو جج صحیح کام نہیں کر رہا اسے نکال باہر کریں، عدلیہ میں کرپشن پر زیرو ٹالرینس ہونی چاہیے، ادارے کو چلانے کے لیے انفرادی سوچ کو بھولنا پڑیگا۔ عدلیہ کی تاریخ سے مطمئن نہیں، عدالتی تاریخ کا دفاع بھی نہیں کرنا چاہتا، جسٹس سسٹم کمزور ہو گا توکوئی سسٹم نہیں چلے گا، مضبوط جسٹس سسٹم دیگر اداروں کو بھی مضبوط کریگا، یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا قانون آ گیا ہے، جب تک ہم سسٹم کے تابع نہیں ہوں گے آگے نہیں بڑھ سکتے۔"
جسٹس منصور علی شاہ نے ٹھیک نشاندہی کی ہے۔ کسی بھی ادارے کے سربراہ کو کسی بھی حال میں کسی بھی معاملے میں تشریح اپنی سوچ کے مطابق کرنے کے بجائے آئین و قانون کے مطابق کرنے سے ہی مسائل حل ہوں گے۔ کاش کہ ہم یہ سوچیں، اس حوالے سے سیمینار ہوں، سیاسی قیادت بحث و مباحثہ کرے، نوجوانوں کی رہنمائی کرے، ذاتی مفادات کو قربان کرے، ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر ذاتی پسند نا پسند، لالچ اور رنجشوں کو بھلا کر آگے بڑھے۔ یہ سب کی قومی ذمہ داری ہے۔ ریاستی اداروں کے سربراہان کو بھی یہ طے کرنا ہو گا کہ انہوں نے ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر نظام کو مضبوط کرنا ہے اور سیاسی قیادت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ متبادل قیادت پر کام کرے اور درست سمت قوم کی رہنمائی کرے۔ جتنا جلد ہم شخصیت پرستی سے نکلیں گے اتنا جلد بہتری کا سفر شروع کر سکیں گے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی قیادت کا مختلف معاملات میں مختلف سوچ اور بیانات کی وجہ سے تماشا بنا ہوا ہے۔ ایک ہی مسئلے پر مختلف رہنماؤں اور عہدے داروں کے مختلف بیانات یہ ثابت کرتے ہیں کہ پارٹی میں قیادت کا بحران ہر گذرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ گذشتہ چند روز میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا معاملہ ہو یا پھر عسکری و سیاسی قیادت سے بات چیت کا معاملہ ہو پی ٹی آئی کے عہدیداروں کے مختلف بیانات یہ ثابت کرتے ہیں ان کے پاس نہ تو فیصلے کی طاقت ہے، نہ وہ اتنے اہم معاملات میں خود کوئی پالیسی دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس معاملے میں موجودہ قیادت ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دینے کی اخلاقی جرات رکھتی ہے۔ سب خود کو دوسرے سے بہتر تصور کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تماشا لگا ہوا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ صرف آرمی چیف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی سے مذاکرات چاہتے ہیں۔ حکومت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ خود محتاج ہیں، ریموٹ کنٹرول سے کنٹرول ہوتے ہیں، فارم 47 کے ذریعے ایوان میں آ گئے ہیں ، عوام نے انہیں مسترد کردیاہے، یہ مسترد شدہ لوگ ہیں، یہ ہم سے کیا مذاکرات کریں گے؟
شہریار آفریدی کے اس بیان کے بعد وضاحتیں جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کہتے ہیں شہریار آفریدی نے بیان دیا، ان کا کوئی رابطہ ہوگا، اس بارے میں وہی جواب دے سکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن کہتے ہیں کہ "اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کیلئے کل بھی تیار تھے، آج بھی تیار ہیں اور آئندہ بھی تیار رہیں گے۔ سٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیلئے سوا سال سے کمیٹی بنائی ہوئی ہے۔ مگر ان کی طرف سے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہے، ان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی، دیگر تمام جماعتوں سے بات کر سکتے ہیں، ہمارا چھ جماعتی اتحاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں سے بات چیت کیلئے تیار ہیں۔"
آخر کار پاکستان تحریک انصاف کو سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔ اگر مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں تو اس کے بعد کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔ بڑی سیاسی جماعتیں سیاسی کھیل میں اہم کھلاڑی ہیں ان کے ساتھ مل کر ہی نظام آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ بات پی ٹی آئی کو دو ہزار اٹھارہ میں بھی سمجھ نہیں آئی تھی اور آج بھی وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بہرحال اگر سمجھ جائیں گے تو بہتر ہے۔
آخر میں شہزاد نیر کا کمال
دم بہ دم گردش دوراں کا گھمایا ہوا شخص
ایک دن حشر اٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص
میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص
یاد آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے
کار بے کار زمانہ میں بھلایا ہوا شخص
دشت بے آب میں آواز نہ الفاظ کہیں
ہر طرف دھوپ تھی پھر پیڑ کا سایا ہوا شخص
جب ضرورت تھی اسی وقت مجھے کیوں نہ ملا
بس اسی ضد میں گنوا بیٹھا ہوں پایا ہوا شخص
کیا عجب خوان مقدر ہی اٹھا کر پھینکے
ڈانٹ کر خوان مقدر سے اٹھایا ہوا شخص
اپنی شوریدہ مزاجی کا کروں کیا نیر
روٹھ کر جا بھی چکا مان کے آیا ہوا شخص
"حادثہ ایک دَم نہیں ہوتا"۔
May 10, 2024