جب ضیاء الحق نے اقتدارسنبھالا
جنرل ایوب خان اور جنرل یحی خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے اقتدارسنبھالنے کے واقعے کو آپ جرنیلی حکومتوں کی تیسری قسط کہہ سکتے ہیں دومارشل لائوں کے مارے اور آدھے"گواچے" ملک کے بعد ہمارے حکمرانوں کو سقوط ِمشرقی پاکستان سے کوئی سبق سیکھنا چاہئے تھامگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ بدقسمتی سے کچھ ہمارے سیاستدانوں نے بھی مارشل لاووئں کی شعوری یالاشعوری طورپر مددکی ۔16دسمبر 1971ء کے اگلے دنوں میں جب جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان نے بھٹو کوبیرون ملک سے بلاکریحیٰ خان سے اقتدار چھین کربھٹو کے حوالے کیاتو اپنی دانست میں انہوں نے بھٹو پر بہت بڑاحسان کیاتھا۔ مگر بھٹو جیسے سیاستدان احسان اپنے سر رہنے نہیں دیتے اورتاک میں ہوتے ہیں کہ کب اس احسان کابدلہ "چکایا"جائے ۔یہاں بھی یہی کچھ ہوا ۔جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان کوبہانے سے لاہورکے گورنر ہائوس لایاگیا۔تب مصطفے کھرپنجاب کے گورنرتھے۔ کہانی توذراطویل ہے مختصر یہ کہ دونوں جرنیل گورنر ہائوس کے ایک کمرے میں بیٹھے تھے کہ پی ٹی وی پر شام کاخبرنامہ نشرہواکہ جرنیل گل حسن اورایئر مارشل رحیم نے فوج سے استعفیٰ دے دیا ہے اور صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے گل حسن کویونان اور ایئر مارشل رحیم کوسپین میںپاکستان کا سفیر مقرر کردیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے وہ اپنے فرائض بڑی لگن سے انجام دیں گے۔ جب جرنیلوں نے یہ خبرسنی توان کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے مگر دونوں کو بڑی عزت کے ساتھ متعلقہ ممالک میں سفیر بنا کر بھیج دیاگیا۔یہ دوسراواقعہ تھا جس نے فوج کے دل میں بھٹو کے خلاف گرہ باندھی۔اس سے پہلے فوج اس نتیجے پر بھی پہنچ چکی تھی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ذوالفقار علی بھٹو کا بھی کردار تھا۔یہاں اگر بھٹو کو اقتدار سونپنے کی بجائے نئے انتخابات کراکر ملکی باگ دور نئی منتخب شدہ قیادت کے حوالے کردی جاتی تو شائد بھٹو پہلے جیسی اکثریت حاصل نہ کرپاتے اورقومی حالات شائد ذرا مختلف ہوتے۔ بھٹو کا عہد متضادرویوں سے بھراپڑاتھا۔ایک طرف سیاسی راہنمائوں کوجیسے ڈاکٹر نذیر ممبرقومی اسمبلی کو شہید کیاجارہا ہے تو دوسری طرف اسلامی سربراہی کانفرنس ہورہی ہے۔
ایک طرف احمد رضاقصوری کوقتل کرنے کی کوشش میں ان کے والد شہید ہوگئے تودوسری طرف قوم کو73ء کامتفقہ آئین تحفے کے طورپر دیاجارہا ہے ۔ایک طرف اپوزیشن باالخصوص اصغر خاں کے جلسے الٹائے جارہے ہیں تو دوسری طرف قادیانیوں کو اقلیت قراردیاجارہا ہے۔ ایک طرف لاہور کے شاہی قلعے اور کشمیر کے دلائی کیمپ میں سیاسی مخالفین کوپابند سلاسل کیاجارہا ہے تودوسری طرف ملک کو ایٹمی صلاحیت بنانے کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔یہ متضاد رویے بھٹو کی فطرت ثانیہ بن گئے۔ فہرست بڑی طویل ہے ،مختصر کرتے ہیں ۔1976ء کے ماہ دسمبر کے کسی روز انہوں نے مارچ 77ء میں قومی انتخابات کرانے کااعلان کردیا۔حالانکہ اپریل 78ء تک وہ آئینی وزیر اعظم تھے اور اس کے بعد وہ الیکشن کی کوئی بھی تاریخ دے سکتے تھے ۔مگر انہوں نے"مڈٹرم"ا لیکشن کرانے کو ترجیح دی ۔اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ تمام اپوزیشن جماعتیں بکھری پڑی تھیں۔ سوائے تحریک استقلال کے کسی جماعت میں انتخابی دم خم نہیں تھا۔اپنے کارناموں اوربکھری اپوزیشن کومدنظر رکھتے ہوئے بھٹو نے یہ فیصلہ کیاتو ان کی توقعات کے برعکس اگلے دس روز کے اندر اندر ہی تمام اپوزیشن جماعتیں اس طرح متحد ہوگئیں جیسا شائد انہوں نے پہلے سے ہی طے کیا ہواتھا کہ جونہی بھٹو انتخابات کااعلان کریں ، اپنے سب اختلافات ختم کرکے ہم نے متحد ہوکر اس کا مقابلہ کرنا ہے ۔اپوزیشن کی جماعتیں "پاکستان قومی اتحاد"کے نام سے ایسے متحد ہوئیں کہ ملک کے کونے کونے میں پہنچ گئیں۔ایسا لگاکہ گویا ایک برقی رو پوری قوم میں دوڑ گئی ہو۔ایسے ایسے عظیم الشان جلسے انہوں نے کئے کہ عقل دنگ رہ گئی ۔"نظام مصطفے ﷺ"کے نعرے نے بھی قوم کو جنونی بنادیا ۔انتخابی مہم کے ختم ہونے یعنی مارچ 77ء کے آتے آتے "پاکستان قومی اتحاد "کا ایک زبردست بیانیہ بنا کہ "ذوالفقار علی بھٹو انتخابات میں دھاندلی کرائیں گے اور ہم ہر حالت میں انکی دھاندلی کا مقابلہ کریں گے چاہے جانوں کانذرانہ دینا پڑے"۔ حیرت انگیز حدتک یہی کام ہوا۔ پیپلز پارٹی نے انتخابی دھاندلیوں کی کوئی حد ہی نہ چھوڑی ۔لاڑکانہ سے ذوالفقارعلی بھٹو جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کے مقابلہ میں بلا مقابلہ کامیاب ہوگئے۔ حالانکہ اسکی کوئی ضرورت نہیں تھی وہ اس فضول مشق کے بغیر بھی عباسی صاحب کو شکست دے سکتے تھے۔بھٹو کیا کامیاب ہوئے کہ بلامقابلہ کامیابیوں کادروازہ بلکہ پھاٹک کھل گیا۔وزیر اعلی غلام مصطفے جتوئی ،سرحد کے وزیر اعلی نصراللہ خاں خٹک ،پنجاب کے وزیر اعلی نواب صادق حسین قریشی اوربلوچستان کے وزیر اعلی بلامقابلہ کامیاب ہوئے سوہوئے ،لاہور سے مولانا عبیداللہ انور کے مقابلے میں وزیر قانون ملک اختر نے بذات خود گن سنبھالی اور دہشت پھیلا کرشام تک کامیاب ہوگئے۔میانوالی سے مولانا عبدالستارنیازی کاانتخابی نتیجہ صبح گیارہ بجے ہی آگیاجس میں وہ پیپلز پارٹی کے امیدوارسے ہارگئے۔یوں لگ بھگ ملک میں تئیس یاچوبیس نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدواران نے بلا مقابلہ کامیاب ہوکر"پاکستان قومی اتحاد"کایہ بیانیہ سچاثابت کردیاکہ"پیپلز پارٹی انتخابات میں دھاندلی کریگی"اب اگلے مرحلے میں اس دھاندلی کیخلاف اس جدوجہد کی داستان کاآغاز ہے جس کے نتیجے میں جرنیل، ضیاء الحق نے اقتدار سنبھال لیا۔
قارئین! برادرم علامہ فاروق عالم انصاری کی خرابی صحت کی بابت پتا چلا ۔خیال تھا کہ یہ گرمی ان کی برداشت سے زیادہ ہے شائد کوئی ضمنی اثر چھوڑ گئی ہو۔فون پر معلوم ہواکہ وہ کسی کتاب کی تلاش میں میز پر چڑھ کرادھر ادھر ہاتھ ماررہے تھے کہ میز پر ان کا توازن قائم نہ رہ سکا۔جونہی وہ گرکر اٹھے تومعلوم ہوا کہ دائیں کندھے کے قریب کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے ۔اللہ کریم انہیں صحت کاملہ وعاجلہ عطا فرمائے۔
ضیاء الحق کا باب ابھی ختم نہیں ہواجاری ہے بلکہ کب تک جاری رہے گا کچھ کہانہیں جاسکتا۔