پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ غربت اور کمزوری برداشت کرنا تو آسا ن ہے کیونکہ کمزور انسان کے پاس برداشت کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیںہوتا لیکن دولت اور طاقت کو ہضم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی المیہ بھارت کا ہے ۔ بھارت اپنے آپ کو علاقے کا ایک طاقتور اور دولتمند ملک سمجھتا ہے اور یہ طاقت اس سے برداشت نہیں ہو رہی۔ بھارت کی یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ بھارت کے اردگرد نیپال ،بھوٹان ،سکم اور سری لنکا جیسی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں۔ بنگلہ دیش بھی بھارت کی گود میں بیٹھنے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا یہ تمام ریاستیں بھارت کے ناز و نخرے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے پڑوسی مسلمان ممالک ایران اور افغانستان کو بھی چکمے دے کر ساتھ ملا لیا ہے۔ لہٰذا ان کی طرف سے بھی بھارت کو ’’تابعداری‘‘ کے علاوہ کوئی خطرہ نہیں۔ لے دیکر چین اور پاکستان ہی خطے کے دو ایسے ممالک ہیں جو بھارت کی ’’جی حضوری اور فرمانبرداری‘‘ کرنے سے قاصر ہیں۔ یہی دو ممالک بھارت کی چودھراہٹ کے راستے میں حائل ہیں۔ ان دو ممالک کی یہی خود سری بھارت سے ہضم نہیں ہو رہی۔ چین کے سامنے تو بھارت اس لیے بھی نہیں بول سکتا کہ اسے پتہ ہے کہ لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اس لیے سارا غصہ پاکستان پر نکالنا بھارت نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے ۔ جہاں بھی موقعہ ملتا ہے پاکستان کو نقصان پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ بھارت کی حتی الوسع یہی کوشش ہے کہ پاکستان کو آنکھیں دکھا کر مرعوب کیا جائے جسے پاکستان بطور ایک آزاد اور خود دار ملک کے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ جب تک بھارت اپنی منافقانہ کوششوں میں کامیاب نہیں ہوتا وہ پاکستان کے خلاف ہر قسم کی سازشوں میں مصروف رہے گا۔
پچھلے چند ہفتوں سے بھارت بہت ایکٹو ہے۔ اس نے ظاہری طور پر چین اور پاکستان کیخلاف بہت سے اقدامات کئے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ اقدامات چین کیخلاف تو برائے نام ہیں۔ اصل ہدف تو پاکستان ہی ہے۔بھارت نے پہلا کام تو یہ کیا کہ امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا جس کی رو سے دونوں ممالک ایک دوسرے کی بری، بحری اور ہوائی سہولیات استعمال کرینگے۔فوجیوں کو آرام ،ہتھیاروں کی مرمت ،دیکھ بھال اور ری فیولنگ وغیرہ کی سہولتیں بھی حاصل ہونگی۔ ’’شاہ کا مصاحب‘‘ بننے کے بعد بھارت کی رعونت اور تکبر میں مزید اضافہ ہوا اور نتیجتاً بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستانی علاقے بلوچستان میں دخل اندازی شروع کردی۔ دراصل اس دخل اندازی کی ابتدا تو مودی نے اپنے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی دیوار پر کھڑے ہو کر کی لیکن امریکی معاہدے کے بعد دخل اندازی میں شدت آگئی اور خود کش دھماکے کرائے گئے۔بھارت پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کا سر پرست ہے لیکن وہ دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے۔ بھارت کی بہت کوشش ہے کہ پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دلوا کر اس پر پابندی لگوائے۔ اسی مقصد براری کیلئے بھارت نے پہلے G-20اور بعد میں آسیان کا نفرنسز کے موقع پر ہرزہ سرائی کرکے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیا اور پھر پابندی کا مطالبہ کر دیا۔ شکر ہے کہ کسی ملک نے بھارت کی اس ہرزہ سرائی کو اہمیت نہ دی۔ پھر پاکستان کو اپنے دوستوں اور پڑوسیوں میں تنہا کرنے کیلئے افغانستان کیساتھ گٹھ جوڑ کرکے دہشتگردوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا۔ افغانستان کو ٹریڈ کی سہولتوں کے علاوہ ایک ارب ڈالر کی امداد کی پیشکش بھی کی۔ بھارت کی ان نوازشوں سے افغان صدر اتنے مرعوب ہوئے کہ نریندر مودی کے ساتھ ملکر پاکستان کیخلاف بیانات دئیے۔ ویسے تو بھارت کے افغانستان کے ساتھ پہلے ہی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کرانے کیلئے افغانستان نے بھارت کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی کھلی اجازت بھی دے رکھی ہے لیکن اب نئے معاہدے سے پاکستان کو مزید ’’سینڈوچ‘‘ کر لیا گیا ہے۔ بھارت پاکستان دشمنی میں اندھا ہو چکا ہے اور اب فرانس سے 9ارب روپے کے رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا بھی معاہدہ کیا ہے۔ یہ جدید طیارے ہیں جو بھارت پاکستان کو زیر کرنے کیلئے استعمال کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس سے خطے میں ہتھیاروں کی مزید دوڑ شروع ہو گی۔ اب بھارت دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر نومبر میں پاکستان میں ہونیوالی سارک سربراہ کانفرنس کو سبوتاژ کردیا ہے۔
بھارت کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونیوالی تحریک آزادی ہے جو پچھلے ڈھائی ماہ سے تیز ہوگئی ہے۔ بھارت نے وہاں اس تحریک کو کچلنے کیلئے بے دریغ اور وحشیانہ طور پر فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہے۔ بھارت یہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ اسکی طاقت کے سامنے کوئی ٹھہرے اور وہ بھی خصوصاً کشمیری مسلمان۔ بھارت غصہ میں پاگل ہو چکا ہے۔ اب تک تقریباً110 بے گناہ کشمیریوں کو شہید کر چکا ہے اور ہزاروں زخمی اور معذور ہو چکے ہیں۔ 300سے زائد لوگ بینائی سے محروم ہو چکے ہیں لیکن بھارت کا غصہ ٹھنڈا ہی نہیں ہورہا۔ بھارت کی شاطرانہ اور منافقانہ سوچ نے اس تحریک آزادی کودہشتگردی کا رنگ دیکر ملبہ پاکستان پر ڈال دیا ہے۔اپنی طاقتور پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے بھارت اب ہر صورت دنیا کی توجہ اس مسئلے سے ہٹانا چاہتا ہے اور بھارت کا آسان ہدف پاکستان ہی ہو سکتا تھا۔ لہٰذا بھارت جب فوجی طاقت کے ذریعے تحریک آزادی کچلنے میں ناکام ہوا تو ایک اور گھٹیا چال چلی۔18ستمبر کی صبح کو چند کشمیری حریت پسندوں نے رد عمل کے طور پر اوڑی کے مقام پر ایک بھارتی برگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرکے 17بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کر دیا۔ 30کے قریب فوجی زخمی ہوگئے۔ ان میں سے بھی ایک فوجی دوسرے دن بھگوان سے جا ملا۔ ابھی یہ حملہ جاری تھا کہ بغیر کسی تحقیق کے بھارت نے الزام پاکستان پر لگادیا۔ مقصد وہی تھا کہ پاکستان کو دہشتگرد ثابت کیا جائے اور اقوام عالم کی توجہ بھارتی فوج کی درندگی سے ہٹائی جائے۔ اس واقعہ کی کی ٹائمنگ خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ انہی دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 71واں اجلاس شروع ہوا اور بھارت کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی دہشتگردی چلانے کا موقع مل گیا۔ لہٰذا بھارت نے اقوام عالم میں پاکستان کیخلاف جی کھول کر پروپیگنڈہ کیا۔ بھارت کے اس بیہودہ اور منافقانہ پروپیگنڈہ کو دیکھتے ہوئے بہت سے تجزیہ نگاروں کی رائے میں بھارت نے سیاسی مفاد اٹھانے کیلئے یہ کاروائی خود کروائی۔ پھر اس کاروائی کو سچ ثابت کرنے کیلئے دوسرے دن 10 کشمیریوںکو شہید کرکے پاکستانی دہشتگردوں کا نام لگا دیا۔ پاکستانی دہشت گردوں کا الزام ویسے بھی حیران کن ہے کیونکہ کنٹرول لائن پر بھارت نے دس فٹ اونچی باڑ لگا رکھی ہے جسے عبور کرنا ممکن نہیں۔ پھر کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ بھارت کی ہیوی پٹرولنگ ہے اور بھارت اتنا حساس ہے کہ پاکستان سے اڑ کر جانیوالے کبوتروں کو بھی جاسوس سمجھ کر پکڑ لیتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے چپہ چپہ پر بھارتی فوج موجود ہے۔ ہر اہم مقام پر چیک پو سٹیں بھی قائم ہیں۔ان حالات میں کسی بھی پاکستانی کی وہاں کاروائی ممکن نہیں۔
اس واقعہ کے بعد سے بھارتی قیادت ،بھارتی عوام اور خصوصاً بھارتی میڈیا سخت برہم ہیں۔ بھارتی میڈیا تو آگ اگل رہا ہے۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر بوفر گنیں اور توپیں نصب کر دی ہیں۔ اگلے مورچوں تک بھاری ہتھیار پہنچا دئیے گئے ہیں۔ جنگی مقصد کیلئے بھارت سعودی عرب اور عرب امارات سے 15لاکھ ٹن تیل بھی ذخیرہ کر رہا ہے۔ مودی زیادہ تر وقت فوجی اپریشن روم میں گزار رہا ہے۔ فوج کو تیاری کے احکامات مل چکے ہیں۔ پاکستان کا پانی بند کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ جنگی طرز کی فوجی نقل و حرکت دیکھی جا سکتی ہے۔ جواباً پاکستان نے بھی بھارتی اہداف نشانے پر لے لیے ہیں۔ بھرپور جواب دینے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ پاک فضائی جنگی مشقیں جاری ہی۔ پاک بحریہ بھی الرٹ ہو چکی ہے۔حالات میں سخت کشیدگی پیداہو چکی ہے۔ حالات جنگی ماحول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ یاد رہے کہ ایٹمی جنگ میں کوئی فاتح یا مفتوح نہیں ہوتا۔ صرف تباہی ہوتی ہے۔ گزشتہ روز رات کو بھارت نے ایل او سی پر بلااشتعال پانچ مقامات پر فائرنگ کرکے دو جوانوں کو شہید اور نو کو زخمی کر دیا جس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا گیا۔ بھارت سرجیکل سٹرائیک کی ڈینگ ماررہا ہے۔ یہ صرف اسکی طرف سے اپنے شدت پسندوں اور انگارے اگلتے میڈیا کو مطمئن کرنا ہوسکتا ہے۔
فراموش کردہ سانحہ اوجڑی کیمپ آج کے تناظر میں
May 07, 2024