یہ اچھا ہے کہ سال میں کوئی دن کسی کیلئے مخصوص کردیا جاتا ہے۔ کم از کم اس معاملے پر کچھ تو بات ہو ہی جاتی ہے۔ آزادی صحافت کو ہی لے لیں،یوم آزادی صحافت پر ہر سال مطالبات اور عزم کا اظہار تو کرہی لیا جاتا ہے ،آزادی کا مطالبہ اور آزادی لے کر رہنے کا عزم ،لیکن یہاں آزادی کی بات تو ہوتی ہے صحافت کی نہیں۔ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔ یہی پڑھتے اور سنتے رہے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو تو اس پر بھی اعتراض ہے۔
چند سال قبل تو یہ بحث بھی زور و شور سے چھیڑ دی گئی تھی کہ آخر صحافت کیسے اور کیونکر ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ تو بات یہ ہے کہ عمارت تین ستونوں پر تو مضبوطی سے کھڑی رہ نہیں سکتی چوتھا ستون ضروری ہے۔ اور اگر صحافت نہیں تو پھر کونسا ادارہ چوتھا ستون ہوسکتا ہے؟ اعتراضات ہوسکتے ہیں لیکن ملک اور معاشرے کیلئے صحافت کی اہمیت اور اس کی ضرورت سے تو انکار کسی طور نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن صحافت سے پہلے بات کرنا ضروری ہے صحافی کی۔ وہ اس لئے بھی کہ آج کے دور میں حقیقی صحافی کی پہچان ہی کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے اور جو لوگ صحافت کا چہرہ بن چکے ہیں ان میں سے اکثر کا اس سے اتنا ہی تعلق ہوتا ہے جتنا گاڑی میں پٹرول ڈلوانے یا ڈالنے والے کا پٹرولیم کے شعبے سے۔ جب محض کیمرے والا موبائل فون اور گوگل کا ایک اکاونٹ کسی کو بھی صحافی بنادے ،بڑا صحافی وہی کہلائے جو جیسے تیسے بھی ہو زیادہ لائیکس اور ویوز حاصل کرلے۔ جب دن میں عدالتوں میں دلائل دینے والے وکلا رات کو صحافی بن کر کسی مخصوص سیاسی جماعت کا مقدمہ لڑنے لگ جائیں،دن میں مریضوں کا علاج کرنے والے رات کو تجزیہ کار کہلاتے ہوئے سیاسی، سفارتی اور دفاعی امور کے معالج بن جائیں،انہی کی بات اہم سمجھی جائے تو حقیقی صحافی کی پہچان گم ہو ہی جائے گی، ایک بار ایک بزرگ سیاستدان نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے سیاست اور صحافت میں غیر سیاسی اور غیر صحافتی لوگ آگئے ہیں۔یہی غیر سیاسی اور غیر صحافی عناصر سیاست اور صحافت کا بڑا مسئلہ اور تنزلی کی وجہ ہیں۔ بات درست ثابت ہوئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام تو ٹی وی پر آکر سیاسی ،معاشی دفاعی اور عالمی امور پر لیکچر دینے والوں کو اصل صحافی سمجھ لیتے ہیں ،وہ خبر دینے والے کو نہیں بلکہ اس پر تبصرے کرنیوالوں کو پہچانتے ہیں۔ وہ تو یہ نہیں جانتے کہ اصل میں صحافی ہے کون؟ صحافی وہی ہے جس کی ذمہ داری خبر دینا ہے اور اس کا احتساب بھی اسی خبر پر ہوتا ہے ،یعنی خبر دینے اور پھر اس کی مکمل ذمہ داری لینے والا ہی صحافی ہے۔ ایسا نہیں کہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق آگے بیان کردی۔ درست ہوئی تو ٹھیک ورنہ خاموشی۔ لیکن صحافی ایسا افورڈ نہیں کرسکتا ،اخبار کے ایک ایڈیٹر سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے رپورٹر کی خبر باو¿نس (خبر غلط ثابت ہونے کی صحافتی اصطلاح) ہوگئی ہے، آپ نے اس سے پوچھا؟۔ تو ایڈیٹر نے جواب دیا مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں، اس سے تو پورا شہر پوچھے گا۔ یعنی اگر کوئی صحافی غلط خبر دےتو اس کا سب سے بڑا احتساب عوامی ہوتا ہے ،بات یہ ہے کہ اگر صحافت کے بتائے گئے اصولوں کو مدنظر رکھ لیا جائے تو خبر متنازعہ بنتی ہے نہ خبر دینے والا۔ اگلی بات۔ حکمران کوئی بھی ہو، وہ آزادی صحافت کا علمبردار تو بنتا ہے لیکن اس کو صحافت کی اتنی ہی آزادی اچھی لگتی ہے جو اس کے لئے فائدہ مند ہو۔ جس سے اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
جب کوئی صحافی خبر میں تمام تر صحافتی لوازمات پورے کرلے تو کسی کو چاہتے ہوئے بھی تنقید کا موقع نہیں ملے گا۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اور جب کوئی “صحافی” کسی ایجنڈے کے لئے صحافتی اصولوں کو پس پشت ڈال دے گا تو پھر ہر کسی کو صحافت کی ایسی “ آزادی” پر سوال اٹھانے کا موقع مل جائے گا۔ اس میں دوسرا سب سے اہم کردار صحافتی تنظیموں کا ہے جن کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جب یہ تنظیمیں صحافت کا لبادہ اوڑھے غیر صحافتی عناصر کو خود سے لاتعلق نہیں کریں گی۔ تو اس کا خمیازہ صحافی بھی بھگتیں گے اور صحافت بھی۔ تو دوسروں کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنا گھر درست کرنیکی ضرورت ہے۔ پروفیشنل ازم ہی صحافیوں کی اصل طاقت ہوسکتی ہے اور صحافت کی آزادی کی بڑی ضامن بھی۔
اہرام مصر کیلئے بھاری پتھر کیسے لائے گئے ؟ ہوشربا انکشاف
May 18, 2024 | 16:12