پنجابی زبان،ثقافت کا فروغ جدت میں ہے

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جو اپنی دھرتی، زبان، روایات اور لوک ورثے سے جُڑی رہتی ہیں، ہمیشہ اپنی شناخت برقرار رکھتی ہیں۔ مگر جو قومیں اپنی تہذیب و تمدن کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں، وہ نہ صرف اپنی ثقافتی پہچان کھو دیتی ہیں بلکہ اکثر ان کا جغرافیہ بھی بدل دیا جاتا ہے۔ زبانوں کے عالمی دن کے موقع پرپنجاب سرکار کی خدمت میںیہ عرض ہے ، اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے کہ زبان کسی بھی قوم کی بقا، ترقی اور تشخص کی ضامن ہوا کرتی ہے۔ پنجاب اور پنجابی زبان کی تاریخ، اس کی اہمیت اور لوک دانش کو عزت دیتے ہوئے اپنانے،تعلیمی اداروں میں پرائمری سے بطور نصاب پڑھانے کا حکم جاری کیا جائے۔پنجاب اور پنجابی زبان کی تاریخی اہمیت ہزاروں سال پرانی ہے۔  صدیوں سے علم و ادب، تجارت، زراعت اور ثقافت اور پنجابی زبان اس خطے کے باسیوں کی شناخت ہے۔
پنجابی زبان کی قدامت اور وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بابا فرید، وارث شاہ ، بلھے شاہ، شاہ حسین، میاں محمد بخش،پیر مہر علی شاہ، سلطان باہو اور غلام فرید جیسے عظیم صوفی شاعروں کی زبان ہے۔ اس زبان نے نہ صرف مذہبی اور روحانی حوالوں سے اپنا ایک منفرد مقام پیدا کیا بلکہ عوامی سطح پر بھی اسے ایک خاص عزت حاصل رہی ہے۔پنجابی زبان دنیا کی قدیم اور خوبصورت زبانوں میں سے ایک ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور دیگر ممالک میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، جدید دور میں اس زبان کو وہ مقام حاصل نہیں جو اسے ملنا چاہیے۔ اس کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جو نہ صرف پاکستانیوں بلکہ دنیا کے دیگر لوگوں کو بھی پنجابی زبان پڑھنے اور سیکھنے پر مجبور کر دیں۔پنجابی زبان کو اسکولوں اور کالجوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانا چاہیے۔ تعلیمی نصاب میں پنجابی ادب، شاعری، اور تاریخ کو شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل کو اپنی مادری زبان سے جوڑا جا سکے۔ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔ یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارمز پر پنجابی زبان میں معیاری مواد تخلیق کیا جائے، جیسے کہ بلاگز، ویڈیوز، اور پوڈکاسٹس، تاکہ عالمی سطح پر پنجابی زبان کی مقبولیت بڑھے۔پنجابی زبان میں زیادہ سے زیادہ کتابیں، اخبارات، اور میگزین شائع کیے جائیں تاکہ لوگوں کو پنجابی پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہو۔ پنجابی میں معیاری ناول، کہانیاں اور تحقیقی مضامین لکھے جائیں جو عالمی سطح پر قارئین کو متوجہ کر سکیں۔تفریحی صنعت کسی بھی زبان کی ترویج میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
جدید سائنسی علوم کا پنجابی زبان میں ترجمہ کر کے تعلیمی نصاب کا حصہ بنا جائے۔ پنجابی زبان میں معیاری فلمیں اور ڈرامے بنائے جائیں جو نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مقبول ہوں۔ اس سے پنجابی زبان کو عالمی شناخت حاصل ہوگی۔سب سے اہم کام جس کے لیے جوش کی بجائے ہوش، دانشمندی اور حکمت عملی سے کام کرنے کی ضرورت ہے کہ پنجابی زبان میں مختلف سافٹ ویئر، ایپس، اور ترجمہ کرنے والے اوزار تیار کیے جائیں تاکہ لوگ آسانی سے پنجابی کو ڈیجیٹل دنیا میں استعمال کر سکیں۔ گوگل ٹرانسلیٹ اور دیگر ترجمہ کرنے والی ویب سائٹس میں پنجابی زبان کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔پنجابی ثقافتی میلوں اور زبان کے مقابلوں کا انعقاد کیا جائے تاکہ لوگ پنجابی زبان سے جُڑے رہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پنجابی تقریری اور تحریری مقابلے کروائے جائیں تاکہ نوجوان نسل میں پنجابی لکھنے اور بولنے کا جذبہ پیدا ہو۔پنجابی زبان کو اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں شامل کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔ پنجابی میں ترجمہ شدہ کتابیں، مضامین، اور دیگر مواد دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ بین الاقوامی سطح پر پنجابی زبان کو تسلیم کیا جا سکے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ پنجابی زبان کو عالمی سطح پر فروغ ملے، تو ہمیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ تعلیمی اداروں میں پنجابی کی شمولیت، سوشل میڈیا پر اس کا فروغ، ادب اور فلموں کے ذریعے اس کی ترقی، اور ٹیکنالوجی میں اس کی شمولیت جیسے اقدامات اس زبان کو ایک نئی زندگی دے سکتے ہیں۔ جب دنیا کے لوگ پنجابی زبان میں معیاری مواد دیکھیں گے، پڑھیں گے اور سنیں گے، تو وہ اس زبان کو سیکھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یوں پنجابی زبان نہ صرف زندہ رہے گی بلکہ ترقی بھی کرے گی۔
بدقسمتی سے، پنجاب میں آباد،دھرتی کا نمک کھانے والوں کے بغض کی وجہ سے آج بھی کروڑوں لوگوں کی زبان پنجابی کو سکولوں میں رائج کرنے کے حوالے سے کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک مخصوص سوچ کے لوگوں کی طرف سے اردو اور انگریزی کو غلبہ دینے کی خواہش میں پنجابی زبان کو کمتر بنا کے پیش کیا  جاتا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سکول سطح سے پنجابی کی تدریس پہ پابندی اور پنجابی کو انپڑھوں کی زبان کہنے والوں کے بیانیہ نے،اپنی ہر ممکن کوشش کی کہ پنجاب میں پنجابی زبان کو بلکل ہی ختم کردیا جائے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جو زبان،زمین سے نکلی ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوسکے گی۔ایک مدت تک پنجابی والدین بھی بچوں کو پنجابی پڑھانے میں دلچسپی نہیں لیتے رہے۔ بلکہ اُلٹاگھروں اورتعلیمی اداروں میں طالب علموں کے پنجابی بولنے پہ سرزنش کی جاتی رہی ہے۔لیکن اب پنجاب کے سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پنجابی رہتل دن منانے کا اہتمام بڑے زور و شور سے ہونے لگا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف اپنے پنجابی ہونے پہ فخر کرتی ہیں۔ان کے وزیروں،مشیروں اور مصاحبوں کو چاہیے کہ پنجابی ادب، شاعری، اور لوک ورثے کی ترویج کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کریں۔تعلیمی اداروں،سرکاری دفتروں اور عوامی تقریبات میں پنجابی بولنے کی حوصلہ افزائی کریں۔اس کے بعدپنجاب حکومت،صوبے سے چلنے والے میڈیا ہاوسسز کو پابند کرے کہ وہ پنجابی زبان میں پروگرامز، فلمیں، اور ڈرامے زیادہ نشر کریں۔پنجاب کے بہادر ہیروز کے نام پر ٹی وی سیریز اور فلمیں بنائی جائیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

جان کر جیو۔

پس آئینہ/خالدہ نازش۔ بچپن میں بہن بھائیوں کا کھیل کے دوران اگر کسی بات پر جھگڑا ہو جاتا ہے تو عام طور پر جو قصوروار ہوتا ہے ...