گرمی کی شدت : وجوہ اور ھماری ذمہ داری
عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جس کی وجہ سے گذشتہ کئی برسوں سے اسے غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑے شہر میں شدید گرمی سے سینکڑوں جانیں ہوئیں تو دوسری جانب تھر میں مستقل خشک سالی کا سامنا ہے۔آب و ہوا میں ہمیشہ قدرتی تغیرات ہوتے رہے ہیں۔ فضا میں ایک گرین ہاؤس گیس جو کاربن ڈائی اکسائیڈ ہے اْس کی مقدار انیسویں صدی کے بعد سے تقریباً 50 فیصد اور گذشتہ دو دہائیوں میں اس میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔جب درختوں کو جلایا جاتا ہے یا انھیں کاٹا جاتا ہے تو عام طور پر ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے اْس کا اخراج ہوجاتا ہے۔ لیکن انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اب عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ماضی میں جب سے لوگوں نے تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال شروع کیا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔ یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو سورج کی توانائی کو پھنساتی ہیں۔ صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر کو کم بارشوں کے باعث خشک سالی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے درجنوں اموات واقع ہو چکی ہیں ,دوسری جانب مئی میں ملک کے شمالی علاقوں میں غیر متوقع شدید بارشوں اور پہاڑوں پر برفباری سے کئی جانیں ضائع ہو گئیں۔پاکستان کے میدانی علاقے بالخصوص صوبہ سندھ میں اس وقت گرمی کی شدید لہر جاری ہے جہاں کئی علاقوں میں گرمی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں لوگ بہت ضروری کام کے سلسلے میں ہی گھر سے نکلتے ہیں لیکن بجلی کی طویل بندش کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں بھی مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ۔محکمہ موسمیات نے گرمی کی حالیہ لہر کی وجہ سے لوگوں کو ہیٹ سٹروک سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے اور ایسا ہی مشورہ خبیبر پختونخوا کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کی ہیپاکستان کے چند شہروں میںگرمی پڑنا شروع ہو گئی ہے اوربعض علاقوں میں شدید گرمی کی وجہ سے سکولوں میں بچوں کو جلد چھٹی دے دی گئی جبکہ دیگر علاقوں میں بھی سکول کے اوقات دوپہر ساڑھے 12 تک ہی ہیں۔ بعض علاقوں میں اس کی شدت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کے مرکزی علاقے سمیت شمالی خطے اور پاکستان کے چند شہروں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سنیٹی گریڈ سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ 2018 میں دنیا بھر کے ممالک میں موسمِ گرما میں بہت زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ ان میں کچھ مقامات پر تو وہاں کی اوسط سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔مثال کے طور پر برطانیہ، ناروے، سویڈن، مشرقی کینیڈا، مشرقی سائیبیریا کے کچھ علاقے، جاپان اور بحیرہِ کیسپین کے علاقوں میں درجہ حرارت ان علاقوں کے اوسط درجہ حرارت سے زیادہ تھا۔ جاپان نے ہزاروں لوگوں کے متاثر ہونے کے بعد گرمی کی اس لہر کو قدرتی آفت قرار دیا تھا تاہم دیگر ممالک میں شدید گرمی ایک خاموش قاتل ہے۔اگر آپ سیلاب، طوفان یا زلزلے جیسی قدرتی آفت کا شکار ہوں تو اس کا اثر فوری طور پر نظر آتا ہے۔ آسٹریلیا کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کی موسمیاتی تبدیلی کے علوم کی ماہر سارا پرکِن کِرک پیٹرک کہتی ہیں کہ ’چیزیں بہہ جاتی ہیں، لوگ ڈوب جاتے ہیں، لیکن گرمی کی لہر خاموش قاتل بن جاتی ہے۔‘ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حالت گرم اور غریب خطوں میں تو اس سے بھی بد تر ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں لْو کا چلنا ایک معمول ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ لْو کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کو کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان کے دعوے پر کوئی یقین نہیں کرتا ہے۔’اگلی چند دہائیوں میں اگر صنعتوں سے گرم ہواؤں کا اخراج جاری رہتا ہے تو جنوبی ایشیا میں گرمی کی لہر میں اس حد تک اضافے کا امکان ہے جو کہ انسان کے برداشت سے کافی زیادہ ہوگی۔‘اس وقت کئی اور ممالک میں بھی لْو کو قدرتی آفت نہیں قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ہوا کی طرح چلتی ہے اور اس کی تباہی زیادہ نظر نہیں آتی ہے۔کہا گیا ہے کہ گرمی کی ایسی لہر جسمانی صحت کے لیے اور دیگر معاملات کے لیے شدید مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ لْو کی وجہ سے طلبا کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، دفتروں کے ملازمین کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہیرواں ماہ مئی کے درجہ حرارت کا ریکارڈ حاصل کر کے اس کا تجزیہ کیا جائے اور انھی کی بنیاد پر مون سون کی بارشوں کے رجحان کا اندازہ ہو سکے گا، تاہم ابھی تک کی دستیاب معلومات کی بنیاد پر یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اچھی برسات ہو گی۔دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ماحولیاتی تبدیلی کا کیا مطلب آب و ہوا کی تبدیلی ہے جس سے پانی کی قلت پیدا ہو گی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔موسم میں شدت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات جیسے گرمی کی لہر، بارشیں اور طوفان بار بار آئیں گے اور ان کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا، یہ لوگوں کی زندگیوں اور ذریعہ معاش کے لیے خطرہ ہو گی۔جب ان کے علاقے میں تبدیلیاں آئیں گی، جانوروں کی کچھ اقسام نئے علاقوں میں منتقل ہو جائیں گی۔لیکن موسمیاتی تبدیلی اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ بہت سی اقسام کے ناپید ہونے کا امکان ہے۔سائنسدانوں نے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کو گلوبل وارمنگ کے لیے 'محفوظ' حد مقرر کیا ہے۔اگر درجہ حرارت زیادہ ہو جائے تو قدرتی ماحول میں نقصان دہ تبدیلیاں انسانوں کے طرز زندگی کو تبدیل کر سکتی ہیں۔بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایسا ہوگا اور صدی کے اختتام تک 3 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ کے اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔دنیا کے مختلف ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسے اہداف اپنائیں جو ان کے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو اس صدی کے وسط تک 'صفر' تک لے جائیں۔مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی اخراج مساوی مقدار جذب کر کے متوازن ہو جائے گا، مثال کے طور پر درخت لگانے کے ذریعے۔امید یہ ہے کہ یہ درجہ حرارت میں تیزی سے ہونے والے اضافے کو روک کر موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک ترین اثرات پر قابو پائے گا۔موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سائنسدانوں کی معلومات ہر وقت بڑھ رہی ہے۔مثال کے طور پر، وہ اب آب و ہوا کی تبدیلی اور کسی ایک موسمی واقعے جیسا کہ سخت بارش اور گرمی کی لہر کے درمیان ربط کا پتا لگا سکتے ہیں۔امید کی جا رہی ہے کہ وہ مستقبل میں ایسی موسمی آفات کا بہتر اندازہ لگا سکیں گے۔سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میںکانفرنس آف پارٹیز (کوپ) 26 نامی کانفرنس میںکا مقصد دنیا کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کا سدِباب کرنا ہے اور اس کانفرنس کے صدر آلوک شرما نے کہا ہے کہ کوپ 26 دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی 'آخری بہترین اْمید' ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں بدترین ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچنا ہے تو ہمیں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنا ہوگا۔چھ سال قبل پیرس میں عالمی رہنماؤں نے اس مقصد پر اتفاق کیا تھا اور اب اس پر پیشرفت کا جائزہ لیا جا رہا ہے
اور مزید اہم اعلانات بھی متوقع ہیں۔ ہمیں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنا ہے تو حکومتوں کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر سختی سے قابو پانا ہوگا۔ہم سب کی زندگیوں پر اس سے فرق پڑے گا۔ یہاں لیے گئے فیصلے مستقبل میں ہماری ملازمتوں، ہم اپنے گھروں کو کیسے گرم و ٹھنڈا رکھتے ہیں، ہم کیا کھاتے ہیں اور کیسے سفر کرتے ہیں، اس سب پر اثر انداز ہوں گے۔عالمی ادارہ موسمیات (ڈبلیو ایم او) کا کہنا ہے کہ سخت ترین موسم یعنی انتہائی گرمی کی لہریں اور تباہ کْن سیلاب اب معمول بن چکے ہیں۔سنہ 2021 کی سٹیٹ آف کلائمیٹ رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کے اشاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں بڑھتے درجہ حرارت، شدید موسمی حالات، سمندری سطحوں میں اضافے اور سمندروں کی صورتحال شامل ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ دنیا 'ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہی ہے۔'سنہ 2002 سے اب تک 20 سالہ اوسط درجہ حرارت صنعتی دور کے آغاز سے پہلے کے مقابلے میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہونے والا ہے۔اس کے علاوہ سنہ 2021 میں عالمی سطح سمندر میں بھی سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے