قوم نے عید سعید تو منائی مگر۔۔۔۔!!!
کورونا وائرس کی وبا میں لاک ڈائون کے خصوصی احکامات کی روشنی میں قوم نے عید تو منائی مگر تاحال حیرت میں مبتلا ہیں کہ آیا ہماری عید وا قعی عید تھی یا ہمارے ساتھ کھلواڑ ہو گیا کیونکہ بدھ12مئی 2021 کورات ساڑھے گیارہ بجے تک رویت ہلال کمیٹی یہ اعلان کرنے سے قاصر تھی کہ آیا عید جمعرات کو ہوگی یا جمعہ کو۔ اس بار وفاقی وزیر اطلاعات و سابق وزیر سائنس ٹیکنالوجی فوادچوہدری کی منطق بھی کام نہ آئی اور انکا یہ دعویٰ ’ بدھ کو چاند نظر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ رد کر دیا گیا اور رویت ہلال کمیٹی کے چئیرمین علامہ عبد الکبیر آزاد نے رات بارہ بجے کے قریب اعلان کردیا کہ عید جمعرات 13مئی 2021 کو ہو گی جب کہ اکثر مساجد میں 30ویں روزے کے لئے نماز تراویح بھی ادا کر دی گئی اور حکومتی اعلان کے مطابق عید منانے کے ساتھ ساتھ بعض علماء کرام کی جانب سے ایک روزہ قضا رکھنے کی ہدات بھی کی گئی۔ اسی طرح مساجد میں موجود معتکفین نے بھی آخری لمحات انتظار میں گزارے اور آدھی رات کو گھر پہنچے ۔اس صورت حال میں کیا چاند رات مناتے، کیا چاند دیکھنے کی مبارکباد دیتے۔سب دھرے کا دھرا رہ گیا۔
بہر حال ہماری حیات میں برکتوں و رحمتوں والے ماہ ایک اور رمضان المبارک نصیب ہوا جس کے ہم شکر خدا وندی بجا لاتے ہیں۔بلا شبہ انسان فطری طور پر لالچی ہے اور زیادہ زیادہ ثواب کے لئے صدقہ خیرات کرتا ہے۔ ثواب ہی کے لئے نیکیاں کماتا ہے۔کسی نہ کسی طور مسلمانان عالم نیکیاں سمیٹنے اور ثواب کے لئے خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ بالخصوص اس مقدس ماہ میں خصوصی عبادات کے ساتھ ساتھ خیرات، صدقات و فطرہ کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں کیونکہ رمضان المبارک میں ثواب کا درجہ 70گنا بڑھ جاتا ہے بعد ازاں ہم اس جذبہ سے عاری پورا سال اپنے اپنے کاموں میںمصروف ہو جاتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں ریکارڈ اور بیش بہاخیر ات اور راشن تقسیم کرنے والے مخیر حضرات کے حوالہ سے ایک پوسٹ کا تذکرہ ہو جائے۔ان کے بارے میں مستحقین اور غریب طبقہ کی فریا د تھی کہ بھوک اور ضرورتیں محض ماہ رمضان ہی میں نہیں سال کے باقی مہینوں میں بھی ہوتی ہیں۔ بھوک و پیاس صرف رمضان المبارک میں لگتی ہے، یہ پورے سال لگتی ہے۔
مستحقین کی مدد کرنے اور ثواب کی نیت سے کچھ دینے میں عزت نفس کاخیال کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسلام میں عزت نفس کے حوالہ سے خاص احکامات ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ اس طرح خرچ کرو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور یہ پوشیدہ اور راز داری میں دیا جانے والا اللہ تعالیٰ کوزیادہ مقبول ہے۔
یہاں پر سوشل میڈیا پر ارسال کی گئی ایک پوسٹ کا ایک بار پھر تذکرہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ پوسٹ یوں تھی کہ پھل فروٹ کی دکان پر ایک شخص نے سیب کے دام معلوم کئے تو دکاندار نے اسے بتایا ’’ محترم! یہ سیب 80 روپے فی کلو ہیں‘‘ ۔اسی دوران ایک خاتون آگئیں اور انہوں نے بھی انہیں سیب کے دام پوچھے جن کے وہاں پر موجودگاہک ریٹ استفسار کرچکا تھا‘ دکاندار نے خاتون کو سیب کے ریٹ 40 روپے فی کلو بتائے جس پر وہ شخص آگ بگولہ ہوگیا اور خونخوار نظروں سے دکاندارکو دیکھنے لگا لیکن اشارے سے دکاندارنے خاموش رہنے اور انتظار کرنے کا کہا۔ خاتون نے ایک کلو سیب خریدے اور شکر خدا وندی بجا لاتے ہوئے رخصت ہوگئی کہ ان کے بچے یہ فروٹ کھائیں گے۔ خاتون کے جانے کے بعد دکاندار اس گاہک سے مخاطب ہوا‘ میں نے تجھے کوئی دھوکہ نہیں دیا یہ خاتون چار یتیم بچوں کی ماں ہے لیکن یہ ایک خود دار عورت ہے‘ یہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے والی نہیں‘ کئی بار اس کی مدد کرنے کی کوشش کی‘ پر ہربار ناکام رہا۔ اب یہی ایک ترکیب سوجھی کہ کم سے کم دام لگا کراس کو پھل فروٹ دے دوں‘ یوں اس کا بھرم قائم رہے‘ عزت نفس بھی مجروح نہیں ہو اور اسے بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی کی محتاج نہیں ہے۔ دکاندار نے اس گاہک سے مزید کہا ’’میں یہ تجارت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہوں اور اس کی رضا و خوشنودی کا طلب گار ہوں‘‘۔ دکاندار کا مزید کہنا تھا ’’یہ بیوہ عورت جس دن میری دکان میں آجائے خدا گواہ ہے میری کمائی اس دن تین چارگنا زیادہ ہوجاتی ہے‘‘۔ گاہک دکاندار کی باتوں اور نیک عمل سے بے حد متاثر ہوا اور کہا ’’بخدا لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ان کا عزت نفس مجروح ہونے سے بچانے میں جولذت ملتی ہے اسے وہی جان سکتاہے جس نے آزمایا ہو۔ یقین کریں آپ جتنا خداوند تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے‘ اس سے کئی زیادہ وہ ذات آپ کو نواز دے گی۔ عمل وہ جو پسند آجائے اور بات وہ جو دل میں اتر جائے پر عمل پیرا ہوکر نیک کاموں کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو ہماری مدد کے طلب گار ہیں لیکن وہ ہاتھ پھیلانا نہیں چاہتے‘ وہ اپنا بھرم اور سفید پوشی کے ہاتھوں مجبورہوتے ہیں‘ درا صل یہی حقیقی ضرورت مند ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک عزیز کے ہاں کام کرنے والی خادمہ آتی ہیں ان کی بچی کی شادی طے پائی تو باتوں باتوں میں کچھ مالی مدد چاہی‘ مالی امداد کے ساتھ ساتھ انہیں مشورہ دیا کہ جہیز کے لئے وہ اگر کسی فلاحی ادارے سے رجوع کریں تو کافی مشکلات حل ہوسکتی ہیں‘ جس پر انہوں نے کہاکہ ہم عزت دار لوگ ہیں پچھلے دنوں ہماری عزیزہ کی شادی تھی انہوں نے ایک ویلفیئر والوں سے جہیز کی بات کی اور ان سے جو کچھ ملا سب پر ویلفیئر کا نام لکھا ہوا تھا‘ بیڈ پر‘ الماری‘ کپڑوں پر برتنوں پرجس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یہ جہیز کہاں سے آیا اورکس طرح آیا۔ گویا عزت نفس کا کوئی خیال ہی نہیں۔ اس لینے سے تو نہ لینا ہی بہتر ہے۔ بہرحال ہمارے ملک میں درجنوں فلاحی ادارے موجود ہیں جو کہ ملک کے طول و عرض فلاحی کاموں اور مستحقین کی مدد میں مصروف عمل ہیں جن سے ہزاروں لاکھوں خاندان استفادہ کرتے ہیں ا ور بعض ادارے بالخصوص ایدھی فائونڈیشن‘جماعۃ الدعوۃ و دیگر ادارے ہنگامی حالات میں حکومت کا بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اس طرح ایدھی فائونڈیشن‘ عالمگیر ٹرسٹ‘ سیلانی انٹرنیشنل‘ چھیپا‘ المصطفیٰ ویلفیئر‘ خواجہ غریب نواز ٹرسٹ‘ فاران انٹرنیشنل و درجنوں دیگرا دارے ایمبولینس سروسز‘ طبی خدمات‘ کچن‘ دستر خوان‘ ماہانہ راشن‘ رمضان المبارک راشن‘ سرد خانہ‘ غسل و کفن‘ میت سروس‘ یتیم خانے ‘ اولڈ ہوم‘ شیلٹر ہومز و دیگر سروسز کی فراہمی میں مصروف عمل ہیں۔ جو کہ خوش آئند ہے لیکن ان میں بعض فلاحی تنظیموں کی بنیادی توجہ تشہیرہے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور فنڈز کے زیادہ سے زیادہ حصول کی خاطر جو کچھ دیتے ہیں اس پر ا پنے ادارے کا نام‘ مونو گرام کی صورت میں تشہیر ہے جو کہ عین عزت نفس مجروح کرنے کے مترادف حتیٰ کہ کفن اور تدفین کے لئے دی جانے والی چادروں پر بھی نام تحریر ہوتے ہیں۔ بعض ادارے اس عمل کو اچھا نہ سمجھتے ہوئے مستحقین کی خالص اس طرح مدد کرنے میں مصروف ہیں کہ کسی کو علم تک نہیں ہوتا۔
فلاحی ادار ے ہوں یا سماجی شخصیات جو امدادی کاموں کو ذریعہ تشہیر بنارہے ہیں‘ سے درخواست ہے ایسے عمل کی نفی کرکے ضرورت مندوں اور مستحقین کی عزت نفس کو مجروح کرنے سے بچائیں تاکوہ وہ معاشرے میں سراٹھا کر آپ کی امداد سے استفادہ کرسکیں۔