دْلے بھٹی کا نام بادشاہوں کی لکھوائی جانے والی تاریخ میں تو نہیں ملتا،لیکن لوک داستانوں،گیتوں اور اور زبانی تاریخ میں سنہرے حروف سے درج ہے۔ (سندر مندریے تیرا مددگار کون ہے، وہ دلا بھٹی والا ہے، دْلے نے بیٹی بیاہی ہے، اس نے سیر شکر پائی ہے)۔آج پنجاب کے مکین یہ لوک گیت جھوم جھوم کر گا رہے ہیں۔ شہر شہر آگ کے الاؤ روشن کیے جا رہے ہیں اور اس کے گرد مرد و خواتین بیٹھ کے پنجاب کے ہیرو کی دْلے بھٹی کی بہادری کی داستانیں سنا رہے۔ دیسی کیلنڈر میں 13 جنوری موسمِ سرما کا آخری دن ہے۔ پوگ کا مہینہ ختم ہوا چاہتا ہے اور اب مگ شروع ہو ا چاہتا ہے۔یہ جاتی سردیوں کو رخصت کرنے اور مل بیٹھنے کا ایک موقع ہے۔ بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ’اجاڑے‘ یعنی تقسیم سے پہلے یہ تہوار سارے پنجاب میں منایا جاتا تھا۔ لوہڑی کے موقع پر لوگ آگ جلاتے اس میں مونگ پھلی، گڑ، تِل اور ریوڑیاں پھینکتے ہیں ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور خود بھی کھاتے ہیں۔لوگ خوشی سے بھنگڑا ڈالتے۔یہ تہوار ذات پات اور مذہب سے بہت آگے تھا۔تقسیم ہندوستاں کے وقت کچھ لوگوں نے زبان کو بھی تقسیم کردیا کہ اردو مسلمانوں کی اور پنجابی غیر سکھوں کی زبان ہے۔کبھی یہ پنجابیوں کا ا بہت اہم اور خاص تہوار ہوا کرتا تھا۔ دلا بھٹی کو سارے پنجابی اپنا مسیحا‘ مانتے تھے اور اس تہوار میں لڑکیوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے جن کی مدد دلا بھٹی نے کی تھی۔اسی طرح اس خطے میں لوٹ مار کی غرض سے آنے والے بادشاہوں کو نصاب میں ہیرو بنا کے پڑھایا اوررائے احمد خاں کھرل،دْلا بھٹی،بھگت سنگھ،اْدھم سنگھ جیسے لوگوں، جنہوں نے اس دھرتی سے،لوگوں سے،روایات سے اور اقدار سے محبت کی تھی انہیں یا تو لٹیرا لکھا یا نصاب میں جگہ دینے سے ہی انکاری رہے۔
پنجاب کے رابن ہْڈ کے نام سے معروف یہ دْلا بھٹی کون تھا جو تاریخ کے ان چند کرداروں میں سے ایک ہے جسے سرحد کے دونوں طرف ہیرو مانا جاتا ہے؟یہ ساندل بار کے دْلا بھٹی کی کہانی ہے جو سوہنی کے چناب کے کنارے لکھی گئی۔ یہ پنجاب کے قصبے پنڈی بھٹیاں کے اس سپوت کی کہانی ہے جس نے مغلوں کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا تھا۔لوہڑی کے تہوار پر الہڑ مٹیاریں دْلا بھٹی کو اپنے روایتی گیتوں میں یاد کرتی ہیں جو پنجاب کے لوک ادب کا اہم حصہ ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چار صدیاں قبل ساندل بار کے علاقے میں دْلا بھٹی کے والد فرید بھٹی اور دادا ساندل بھٹی نے مغل بادشاہ اکبر کے وزیروں کوٹیکس اور آبیانہ ادا کرنے سے انکار کیا تو اس نے اپنے ہرکاروں کے زریعے انہیں بڑی بے دردی سے شہید کروادیا۔ جس کے نتیجے میں اس ظلم کے خلاف ایک ایسی مزاحمتی تحریک ابھری جس نے سلطنتِ مغلیہ کو ہلا کر رکھ دیا۔دْلا بھٹی کی پیدائش سال1547 میں پھنڈی بھٹیاں میں دریائے چناب کے کنارے چوچک کے قریب بدر کے مقام پر ہوئی۔ عبداللہ بھٹی ابھی پالنے میں ہی تھا جب اس کی ماں اسے اس کے دادا ساندل اور والد فرید پر ہونے والے مظالم سے متعلق لوریاں سنایا کرتی۔ وہ اپنے سپوت کو مغلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہی تھی۔’’تیرا ساندل دادا ماریا،دتا بورے وچ پا،مغلیاں پٹھیاں کھالاں لاہ کے،بھریاں نال ہوا‘‘(میں نے دیکھا کہ مغلوں نے تمہارے دادا ساندل کو قتل کرنے کے بعد لاش تہہ خانے میں پھینک دی اور تمہارے عزیزوں کی کھالیں کھینچ کر ان میں ہوا بھر دی۔)دْلا بھٹی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس کے خون نے بھی جوش مارا۔ وہ مغلوں سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ اپنے دادا اور والد کی موت کا ہی نہیں بلکہ ان مظالم کا بھی جو ساندل بار کے کسان برداشت کر رہے تھے۔ یہ وسطی پنجاب میں مغلوں کے خلاف مزاحمت کی ایک ایسی تحریک تھی جس نے علاقے کے تمام سرداروں کو متحد کر دیا تھا۔انہی دنوں شہنشاہ اکبر کے کارندوں نے دو ہندو بہنوں سندری اور مندری کو اغوا کرنے کی کوشش کی تو راجپوت جوان کا خون کھول اٹھا۔ یہ دونوں بہنیں ایک ہندو پنڈت کی بیٹیاں تھیں مگر دْلا بھٹی نے ناصرف انکی جان بچائی بلکہ ان کی شادی بھی کروائی۔دْلا بھٹی مسلمان تھا مگر اس نے ہندو بہنوں کو رْخصت کرتے ہوئے شکر دی اور کہا کہ ’بیٹیوں کو ایسے رْخصت کیا جاتا ہے۔اب ہر طرف دْلے بھٹی کی بہادری کے چرچے تھے۔ہر کوئی اسے اپنا رہبر سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ شامل ہونے لگا تھا۔جس کے باعث مغلوں کے قافلوں کا ساندل بار سے گزرنا ناممکن ہو گیا تھا، دْلا بھٹی کی بغاوت نے شہنشاہ ہند جلال دین محمد اکبر کو اس قدر پریشان کر دیا۔کہ اسے اپنا پایہ تحت فتح پور سیکری چھوڑ کر لاہور آکر ڈیرے ڈالنے پڑے۔دْلا بھٹی اور اسکے ساتھی مغل قافلوں کو لوٹتے رہے اور لوٹ کا مال علاقے کے کسانوں میں تقسیم کر دیتے۔دھرتی سے ماں سے محبت کرنے والادلہ بھٹی اپنی ماں سے بہت محبت کرتا تھا۔جب مغلوں نے دیکھا کہ ان کی فوج کسی بھی طرح دْلے بھٹی کو گرفتار نہیں کر پارہی ہے تو انہوں نے دْلے بھٹی کی ماں کو بہانے سے دربار میں بلوا لیا،انہوں نے دْلے کی ماں کو یقین دلایا کہ وہ کسی طرح اپنے بیٹے کو وہاں بلائے۔وہ اس سے صرف بات چیت کریں گے،ساتھ یہ بھی کہا کہ مغل دربار دْلے بھٹی کے ساتھ کسی قسم کا ظلم نہیں کرے گے، وہ بس آ کر ایک ملاقات کرے۔دلہ بھٹی اپنی ماں کی باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے دربار میں حاضر ہوا، اسے اس بات کا ذرہ برابر بھی اندازہ نہ تھا کہ مغل حکمران عہد شکنی کریں گے اور اس کا وہاں بلانا دراصل ایک گھناؤنی سازش کا حصہ تھا۔ مغل حکمرانوں نے اسے فوراً گرفتار کر لیا اور26 مارچ 1599 کو دہلی دروازے کے باہر چوک پر دْلا بھٹی کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔جب دْلّے بھٹی پھانسی دی جارہی تھی تو معروف صوفی شاعر شاہ حسین بھی وہاں موجود تھے۔اس موقع پرانہوں نے تاریخ جملہ کہا کہ ’’پنجاب کا کوئی بہادربیٹا اپنی دھرتی کا سودا نہیں کرے گا۔‘‘شاہ حسین کا یہ قول ایک روحانی اور معاشرتی پیغام تھا، جس میں وہ ایک طرف دْلّے بھٹی کی قربانی کو سراہتے ہوئے اس کی جدوجہد کو سراہتے ہیں تو دوسری طرف یہ قول وقت کے حکومتی ظلم کے خلاف احتجاج تھا۔