گلوبل ویلج                 اب ایسا نہیں چلے گا

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
 پاکستان کو اس وقت کئی چیلنجز چیلنج درپیش ہیں جن میں سب سے بڑا چیلنج گورنمنٹ اور عوام کے درمیان اعتماد اور یقین کی کمی کا ہے۔ عوام کا اعتماد واپس لانے کے لیے چیف منسٹر پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ کوشش کر رہی ہیں۔ میں یقین سے کہہ رہا ہوں کہ جس دن سے انہوں نے وزارتِ اعلیٰ پنجاب کی  مسند اعلیٰ سنبھالی ہے اس دن سے لے کے اب تک انہوں نے اتنا کام، اتنا سخت  اورجانفشانی سے کام اپنی پوری زندگی میں نہیں کیا ہوگا جتنا کہ وہ اپنی کریڈیبلٹی کو، اپنے وقار کو بچانے کے لیے دن رات اب ایک کر رکھا ہے۔کچھ لوگ تنقید کرتے ہیں کہ یہ ٹک ٹاکر کی حکومت ہے۔  وہ مخالفت برائے مخالفت پر اترے ہوئے ہیں۔ان کے کام کا جائزہ لیا جائے تو 60 صفحات بھی ان کی ایک سال کی کارکردگی کو بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب کسی نئے پروجیکٹ کا اعلان اور افتتاح نہیں ہوتا۔ان میں سے کئی تکمیل پذیر ہو چکے ہیں اور کئی تکمیل کے قریب ہیں۔وہ بڑا اچھا کام کر رہی ہے اور انہوں نے نوجوان نسل کو خاص طور پر متاثر کرنے کے لیے یا ان تک اپنا بیانیہ پہنچانے کے لیے وہی توڑ استعمال کیا ہے جو عمران خان نے یوتھ کو اپنے گرد لانے کے لیے کیا تھا۔محترمہ مریم نواز صاحبہ کے اس عمل میں بقول ان کی اپنی ٹیم کے انہیں خاطر خواہ بہتر نتائج بھی ملے ہیں۔
 دیگر بے شمار کاموں کی طرح گزشتہ روز انہوں نے میو ہسپتال لاہور کا اچانک دورہ کیا یہ علیحدہ بات ہے کہ کچھ ’’نابالغہ روزگار‘‘ رپورٹنگ کرنے والوں نے اس کو ایک مینج ،پہلے سے آرگنائزڈ یا پہلے سے انتظام شدہ پروگرام قرار دیا ہے لیکن جو بھی ہو انہوں نے لاہور کے دل میں لاہور کے حساب سے بڑے ہاسپٹل کا دورہ کر کے نہ صرف مریضوں کی تیمارداری بلکہ ہسپتال میں سہولتوں کا بھی جائزہ لینے کی کوشش کی اور وہاں پر انہوں نے ایم ایس میڈیکل سپریڈنٹ ڈاکٹر  فیصل مسعود کو ان کی جاب سے ناصرف برخاست کیا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ مریضوں کے ساتھ کیا ہے  اگر میں چاہتی تو آپ کو ہتھکڑی لگوا سکتی تھی۔ آپ کی غفلتوں کی وجہ سے کتنا نقصان ہوا اور مریض پریشان ہیں۔ دوسری طرف  ڈاکٹر فیصل مسعود کا یہ بیان بھی بعد میں میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے کہ میں تو  پہلے ہی استعفیٰ  بھجوا دیا تھا کہ میں ان حالات میں مزید سرو نہیں کر سکتا کہ ہاسپیٹل کے پاس نہ دوائیاں ہیں نہ اس کے پاس دیگر ضروریات موجود ہیں۔ ان حالات میں صرف ناکامیاں سمیٹنے کے لیے یا اپنے  ناکامیاں اپنے کھاتے ہوئے ڈالنے کے لیے  اپنی گردن کیوں پیش کروں۔  اس کے ساتھ ہی چیف منسٹر صاحبہ کا وزٹ آ گیا لیکن جو کچھ بھی ہوا یہ عوام کی نظر میں ایک بہت بڑا عمل ہے۔وہ اپنے کاز کے ساتھ مخلص ہیں اور خود کو پاکستان کے بڑی لیڈرز ثابت کرنے کے لیے دن رات محنت کر رہی ہیں۔ دوسری طرف ایک ہی اطلاع کئی دنوں سے گردش کر رہی ہیں کہ اپوزیشن اتحاد جس میں پی ٹی آئی سرکردہ پارٹی ہے جس میں مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی شامل ہو رہی ہے، مسلم لیگ نون کے کسی دور میں رہنے والے بڑے لیڈر شاہد خاقان عباسی بھی اس کا حصہ بن رہے ہیں۔محمود اچکزئی پہلے ہی اتحاد میں موجود ہیں۔ اختر مینگل بھی اتحاد کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جاوید ہاشمی جو کہ کسی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں اس اتحاد کو ان کی بھی آشیرباد حاصل ہے۔اتحاد بہت کچھ کر سکتے ہیں، ماضی میں اس کی مثالیں ایم آر ڈی، اے آر ڈی، پی این اے کی صورت میں موجود ہیں لیکن موجودہ حالات میں کسی بڑے اتحاد کی تشکیل کے باوجود بھی اپوزیشن کوئی کامیابی حاصل کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔کچھ حلقوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ یہاں تو سب کچھ مینج کر لیا گیا ہے۔ کسی اتحاد کی دال پھر کیسے گل سکتی ہے۔
دہشت گردی پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے مولانا سمیع الحق کو شہید کیا گیا اور ان کے بیٹے حامد الحق کو بھی اکوڑا خٹک میں دہشت گردی کے واقعے میں عین نماز کے دوران خود کش حملہ کر کے  10 ساتھیوں سمیت شہید کر دیا گیاشہید کر دیا گیا۔
ایسی دہشت گردی کے ڈانڈے افغانستان سے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ جا ملتے ہیں۔طالبان آج اقتدار میں ہیں تو یہ پاکستان ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔امریکہ تو وہاں کثیر پارٹی حکومت بنوانا چاہتا تھا۔پاکستان نے طالبان کے سر پر ہاتھ رکھا جو اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان ہی کو پڑ گئے۔اسی طرح سے یہاں پہ بیٹھے ہوئے افغان مہاجرین میں بہت سے لوگ ہیں جو احسان فراموشی کر رہے ہیں۔وہ بھی پاکستان میں دہشت گردی میں سہولت کار کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں۔کبھی تو یہ دہشت گردی میں بھی ملوث پائے گئے۔ایسا کب تک چلے گا۔افغان مہاجرین دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ایران میں کتنے ہیں مگر ان سب کو کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔پاکستان میں یہ لوگ پاکستانیوں سے بھی زیادہ آزاد ہیں۔انہوں نے ہمیں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر دیا۔بڑے ٹرالوں سے سڑکیں برباد کر کے رکھ دیں۔گڈز ٹرانسپورٹ کا کاروبار پاکستانیوں کے ہاتھ سے نکل کر ان کے ہاتھ میں چلا گیا۔ان کو کب تک برداشت کیا جائے گا، کب تک ایسا چلے گا۔ ان سے بلا امتیاز اور بلا تاخیر نجات کی ضرورت ہے۔دوسری صورت میں پاکستان دہشت گردی کے چنگل میں پھنسا ہی رہے گا۔مغربی میڈیا نے بتایا ہے کہ ’’را‘‘ کے وسطی ایشیا میں سرگرم ایجنٹ ٹی ٹی پی کو فنانس کرتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کے امیر ’’را‘‘ سے ماہانہ 45 ہزار ڈالر تنخواہ لیتے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے افغانستان میں موجود امریکی اسلحہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستان کی سرحد کے قریب نئے تربیتی کیمپ کھولے ہیں۔جہاں تنخواہ دار ریکروٹس کو تربیت دے کر پاکستان بھیجا جاتا ہے۔یہ رپورٹ بہت ہی خطرناک ہے۔
آج میں دیکھ رہا تھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے نئے اقدام کے تحت پاک ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر کھولے گئے غیر قانونی راستے بند کیے جا رہے ہیں۔آرمی چیف کی طرف سے باقاعدہ سمگلنگ روکنے کا اعلان کیا گیا تھا۔خصوصی طور پہ ایران سے جس طرح تیل سمگل ہو کے پاکستان آتا ہے۔وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے آرمی چیف کے اس اعلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہونے دیا۔ایسے لوگوں کی بیخ کنی کی ضرورت ہے۔آخر ایسا کب تک چلے گا۔
فلسطین اور اسرائیل معاہدے سے اب تک تو بہتر خبریں آ رہی ہیں۔گزشتہ روز جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا۔ایک طرف جنگ بندی ہو چکی ہے دوسری طرف اسرائیل کی طرف سے حملے مکمل طور پر نہیں رک سکے۔کل بھی تین فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا۔اس معاہدے کے گارنٹر کہاں گئے۔ادھر صدر ٹرمپ کی طرف سے ایک بار پھر دھمکی دی گئی ہے کہ غزا کو ان کے مقامی لوگوں سے خالی کروایا جائے گا۔یہ او آئی سی کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔60 اسلامی ممالک کا ایک بار پھر اجلاس ہوا۔جس کی حیثیت نشستند گفتند اور برخاستند سے زیادہ نہیں سامنے آئی۔فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے آخر یہ کب تک چلے گا۔یہاں پہ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ اب ایسا نہیں چلے گا۔

ای پیپر دی نیشن

جان کر جیو۔

پس آئینہ/خالدہ نازش۔ بچپن میں بہن بھائیوں کا کھیل کے دوران اگر کسی بات پر جھگڑا ہو جاتا ہے تو عام طور پر جو قصوروار ہوتا ہے ...