لاپتہ افراد کیس: اسلام آباد میں اقوام متحدہ کا دفتر کس پروٹوکول کے تحت کام کر رہا ہے: سپریم کورٹ

لاپتہ افراد کیس: اسلام آباد میں اقوام متحدہ کا دفتر کس پروٹوکول کے تحت کام کر رہا ہے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے تمام حراستی مراکز میں قید افراد کے بارے میں حکومت کو مفصل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ حراستی مراکز میں موجود افراد کو کب سے اور کیوں قید رکھا گیا ہے اور انکے مقدمات کی پیشرفت کے بارے میں بتائیں جبکہ فاضل عدالت نے حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے کہ اسلام آباد میں اقوام متحدہ کا دفتر کس پروٹوکول کے تحت کام کررہا ہے اور کیا اس پر پاکستانی قوانین لاگو ہوتے ہیں یا نہیں؟ جبکہ مقدمہ کی مزید سماعت 17جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔ ایس پی (تفتیش) لاہور نے بتایا کہ ایک لاپتہ شخص مدثر کے معاملہ کی تفتیش کیلئے اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر گئے تو انہوں نے تعاون سے انکار کر دیا اور ان کے عملہ کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ کے ذریعے جنیوا رابطہ کیا جائے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا اقوام متحدہ کا پاکستان میں دفتر حکومت کی اجازت سے کھلا ہے؟ کیا اس پر پاکستانی قوانین لاگو نہیں ہوتے؟ اب کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے بارے میں معلومات مانگی جائیں اور فراہم نہ کی جائیں۔ اقوام متحدہ تو خود انسانی حقوق کا علم بردار ہے، لاپتہ شخص مدثر اقبال کے ورثاءنے عدالت کو بتایا کہ مدثر اقبال اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر گیا تھا جہاں سے وہ لاپتہ ہو گیا تھا تاہم اقوام متحدہ کے مقامی دفتر نے براہ راست جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یو این کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا رہی تھی۔ صرف معلومات ہی درکار تھیں۔ کوئی ایسا قانون نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل طارق محمود کھوکھر یو این او سے معلومات لینے کی ہدایت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کہا کہ حکومت سے پوچھ کر بتایا جائے کہ اقوام متحدہ کس پروٹوکول کے تحت ملک میں کام کر رہا ہے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے حراستی مرکز میں قید دو افراد کی ان کے اہلخانہ سے ملاقات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھا اقدام ہوا ہے اور انشااللہ اس پر مزید پیش رفت جاری رہے گی۔ ثناءنیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے دفتر کی جانب سے لاہور سے لاپتہ شخص مدثر اقبال کے حوالے سے معلومات نہ دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم یہ نہیں ہونے دینگے کہ اقوام متحدہ کا کوئی ذیلی ادارہ ملک کے اداروں کی تضحیک کرے اقوام متحدہ ہو یا کوئی بھی حکومت کی اجازت پاکستان میں اپنے دفتر چلاتے ہیں۔ سماعت کے دوران مدثر اقبال کی والدہ بشریٰ بی بی انتہائی افسردہ نظر آئیں ان کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کو لاپتہ ہوئے تین سال ہو چکے ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا ایک ماں کا رونا بجا ہے عدالت ان کے درد کو سمجھتی ہے انہو ںنے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو کیسے یہ جرات ہوئی کہ وہ ہمارے ملک میں بیٹھ کر ایسا رویہ اختیار کرے کہ معلومات دینے سے انکار کرے میرا خیال ہے کہ آپ لوگ اس ماں کا درد نہیں دیکھ رہے۔