وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ معاشی استقامت کیلئے وفاق اور صوبوں کے قریبی تعلقات استوار کرنا پڑیں گے۔ فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں وفاق میں منقسم مینڈیٹ ملا‘ سندھ میں پیپلزپارٹی کو اللہ نے بھرپور موقع دیا۔ بلوچستان میں اتحادی حکومت ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ ملا ہے۔ ہمیں عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے صوبوں کی ترقی و خوشحالی کیلئے وفاق میں گہرا تعاون اور گہرے تعلق کو پذیرائی دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں سندھ کابینہ کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ سندھ اور دوسرے صوبوں کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے‘ ہم پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر کام کرینگے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ انکے بقول اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معاشی استحکام کا ہے۔ سعودی اور ایرانی قیادت کے دوروں سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ قبل ازیں وزیراعلیٰ ہاﺅس کراچی پہنچنے پر وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے وزیراعظم شہباز شریف کا استقبال کیا۔ وزیراعظم کی وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات بھی ہوئی جس کے دوران سندھ اور وفاقی حکومت کے مابین ترقیاتی کاموں اور دیگر مسائل پر بات چیت ہوئی۔
دریں اثنائ وزیراعظم شہبازشریف نے وزیر اعلیٰ ہاو¿س کراچی میں تاجر کمیونٹی کے نمائیندہ وفد سے ملاقات کے دوران چیمبرز آف کامرس کی جانب سے اجاگر کی گئی شکایات سننے کے بعد فوری طور پر وفاقی وزراءاور تمام متعلقہ سیکرٹریوں کو کے سی سی آئی کے ساتھ اجلاس بلانے کی ہدایت کی۔ اس حوالے سے وزیراعظم یکم مئی کو تاجر کمیونٹی کیلئے ریلیف کا اعلان کریں گے۔ وزیراعظم نے تاجروں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کاروباری برادری کی مشاورت کے ساتھ پالیسیاں بنائیں گے تاکہ پاکستان کو، جو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے‘ آگے لے کر جائیں۔ تاجروں کی جانب سے وزیراعظم کو بھارت اور بانی پی ٹی آئی عمران خاں سے تعلقات بہتر بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کس کی حکومت کہاں ہے‘ ہمیں اس سے غرض ہونی چاہیے کہ اپنی ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر ہو کر اکٹھے ہو جائیں۔ اپنی توانائی مجتمع کریں اور سمجھیں کہ مسائل کیا ہیں اور انہیں کیسے حل کرنا ہے۔
آئین پاکستان نے جس منتخب وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی ہے وہ وفاق اور اسکی اکائیوں (صوبوں) پر ہی مشتمل ہے جن کی باہمی تال میل اس سسٹم کو ایک گلدستے کی شکل میں استوار کرتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے وفاق اور اسکی اکائیوں کی آئین کے تقاضوں کے مطابق مساوی ذمہ داریاں ہیں جبکہ 2008ءکی اسمبلی میں منظور کی گئی 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو عملاً خودمختاری دی گئی ہے جس کے تحت وفاق میں شامل متعدد محکمے بھی صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں اور صوبوں کے وسائل بھی متعلقہ صوبے میں ترقیاتی کاموں کیلئے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ وسائل اور فنڈز کی تقسیم کے معاملہ میں وفاق اور صوبوں کے مابین کسی قسم کا تنازعہ پیدا ہو تو اسے طے کرنے کیلئے آئین میں مشترکہ مفادات کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن کی شکل میں دومستند ادارے موجود ہیں جہاں متعلقہ صوبے کی جانب سے رجوع کرکے دادرسی حاصل کی جاتی ہے اور زیادہ تر اس نوعیت کے تنازعات خوش اسلوبی کے ساتھ باہمی مشاورت سے ہی طے ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وفاق اور اسکی اکائیوں کا باہمی ربط ملکی معیشت و زراعت کی ترقی اور متعلقہ معاملات میں عوام کیلئے ریلیف کی ضمانت بنتا ہے۔
اگر انتخابات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کیلئے کسی ایک پارٹی کو عوامی مینڈیٹ حاصل ہو تو ملک اور صوبوں کی ترقی کی یہ مثالی صورتحال ہوتی ہے۔ اسی طرح وفاق اور صوبوں میں کسی سیاسی‘ حکومتی اتحاد کی حکومتیں قائم ہوں تو بھی وفاق اور صوبوں کے تعلقات خوش اسلوبی سے اور خوشگوار ماحول میں چلتے رہتے ہیں۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وفاق میں کسی ایک پارٹی یا اتحاد کی حکومت قائم ہو اور کسی صوبے یا صوبوں میں انکی مخالف جماعت یا اتحاد کی حکومت تشکیل پا جائے۔ اس صورتحال میں بلیم گیم کی سیاست غالب آتی ہے اور ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں ایک دوسرے کی مخالف وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ تناﺅاور ٹکراﺅکی نوبت بھی لے آتی ہیں۔ اسکی ماضی بعید سے اب تک کئی مثالیں موجود ہیں۔ 88ءکے منقسم مینڈیٹ کے تحت وفاق اور سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب‘ سرحد اور بلوچستان میں آئی جے آئی حکومتیں تشکیل پائیں چنانچہ آئی جے آئی کے سربراہ کی حیثیت سے میاں نوازشریف نے وفاقی حکومت سے ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار کی جس کا ملک اور عوام کے ساتھ ساتھ سسٹم کو بھی نقصان پہنچا۔ یہ فضا 1993ءکے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر بھی پیدا ہوئی جب پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی وفاق اور پنجاب میں حکومت تھی اور میاں نواز شریف اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے حکومت کے خلاف مزاحمت کی تحریک چلا رہے تھے جو اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں وزیراعظم کے سرکاری دورے پر لاہور آنے پر انکے استقبال سے بھی گریز کرتے رہے۔ بلیم گیم کی یہی سیاست 1996ءکی اسمبلی میں بھی برقرار رہی جب وفاق میں حکومت کا مینڈیٹ مسلم لیگ نون کو ملا اور سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی۔ اسی سیاسی محاذآرائی کے نتیجہ میں 1999ءمیں جنرل مشرف کو ماورائے آئین اقدام کے تحت اقتدار میں آنے کا موقع ملا جس کے بعد ایک دوسرے کی متحارب سیاسی جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں نے اے آر ڈی کے دوسرے قائدین کو ساتھ ملا کر میثاق جمہوریت پر دستخط کئے جس کے بعد 2008ءاور 2013ءکے انتخابی مینڈیٹ کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومتوں میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن پر اتفاق کیا۔ 2013ءکی اسمبلی میں تو آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری کیلئے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے ماسوائے پی ٹی آئی کے ایک دوسرے کے ساتھ مثالی اتفاق و اتحاد کی فضا بھی استوار کرلی جبکہ پی ٹی آئی نے اپنی خیبر پی کے حکومت کی طاقت سے وفاق کے ساتھ ٹکراﺅ والا راستہ اختیار کیا جس کا سسٹم اور عوام کو ہی نقصان ہوا۔
2018ءکی اسمبلیوں میں تو پی ٹی آئی نے وفاق، خیبر پی کے اور بلوچستان میں اقتدار میں آنے کے بعد اپنے مخالفین کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور سیاسی ڈائیلاگ کے دروازے عملاً بند کئے رکھے۔ یہی فضا آج فروری 2024ءکے عوامی مینڈیٹ کے نتیجہ میں وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کے بعد مزید مستحکم ہوتی نظر آرہی ہے جب وفاق‘ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں اتحادیوں کی حکومت ہے اور پی ٹی آئی سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر خیبر پی کے میں دوتہائی اکثریت والی حکومت تشکیل دیکر عملاً پورے سسٹم کیخلاف صف آراءہے اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اعلانات و عزائم سیاسی حکومتی ٹکراﺅکی نوبت لاتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے لازمی طور پر وفاق اور اسکی اکائیوں پر مشتمل جمہوریت کے گلدستے کا رنگ بھی پھیکا پڑ رہا ہے اور سسٹم کو ماضی جیسا جھٹکا لگنے کے امکانات بھی روشن نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتحال یقیناً ملک کی سلامتی کیلئے بھی نقصان دہ ہے کیونکہ ہمارا دشمن بھارت تو ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی ہمہ وقت تاک میں رہتا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم شہبازشریف کا یہ کہنا بجا ہے کہ وفاق اور صوبوں کو یہ دیکھے بغیر کہ کہاں‘ کس کی حکومت ہے ‘ ملک کی معاشی ترقی کیلئے ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا۔ اس کیلئے سیاسی قیادتوں کو بہرحال قومی ڈائیلاگ و مفاہمت اور میثاق معیشت کیلئے اتفاق کرنا ہوگا جس کی آج اشد ضرورت بھی ہے۔ جہاں تک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی تاجر کمیونٹی کی تجویز کا معاملہ ہے‘ پاکستان نے تو بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ اگر بھارت کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی چھوڑ کر یواین قراردادوں کے مطابق یہ مسئلہ حل کرنے کی راہ پر آجائے تو پھر ہمارا بھارت کے ساتھ کیا جھگڑا ہے۔ اس کیلئے بھی ہمیں سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر قومی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے تاکہ بھارت ہماری کسی اندرونی کمزوری سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
گورا سرکار کے حضور فریاد نامہ
May 04, 2024