کمزور معیشت قرضوں کا بوجھ، آمدن و اخراجات میں عدم توازن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ یقینی طور پر یہ مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اور ہمیں خود ہی ان مسائل سے نمٹنا ہے، نہ تو کوئی باہر سے آ کر ہماری معیشت کو کمزور کر گیا ہے اور نہ ہی باہر سے آ کر کسی نے ٹھیک کرنا ہے۔ جو حکمرانوں نے گذرے تیس پینتیس برسوں میں بویا تھا آج پاکستان کے کروڑوں بے بس لوگ خسارے اور گھاٹے کی وہ فصل کاٹ رہے ہیں۔ کسی کو شک ہونا نہیں چاہیے اور نہ کسی غلط فہمی میں رہنا چاہیے کہ یہ کسی اور کی کارستانی ہے یا کسی اور کی وجہ سے یہ تباہی ہوئی ہے۔ یہ زہر ہمارا اپنا پھیلایا ہوا ہے جو آج ہمیں تیزی سے تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ آج ملک میں ہر جگہ ہر سطح پر معیشت زیر بحث ہے ، آمدن اور اخراجات میں عدم توازن زیر بحث ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ تباہی نظر آ رہی ہے اور اگر اب بھی ہم نے دلیرانہ، منصفانہ اور بے رحمانہ فیصلے نہ کیے تو پھر بہت دیر ہو جائے گی، پھر شاید سیاست دانوں کو دوبارہ کبھی موقع نہ ملے۔ یہ ایسے ہی آپ کو اخبارات، ٹیلیویژن اور ڈیجیٹل میڈیا پر معیشت بہتر کرنے کا آخری موقع کی تحاریر و تقاریر سنائی و دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اس کے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہے اور ایسے مباحثوں کی بہت خاص وجہ ہوتی ہے ورنہ قومی سطح پر میڈیا میں ایسے مباحثے نہیں ہوتے۔ حالات واقعی بہت خراب ہیں ۔ کاش سیاست دان، حکمران طبقہ اس وقت میں سیاسی لڑائی جھگڑوں کو چھوڑ کر، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بات چیت اور فیصلے کرے تو پاکستان مشکلات سے نکل سکتا ہے ۔ ہمیں میرٹ، میرٹ اور صرف میرٹ کی ضرورت ہے، ہمیں انصاف، انصاف اور صرف انصاف کی ضرورت ہے، ہمیں قومی مفاد کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چند بنیادی چیزوں پر عمل شروع کر دیں تو بہتری کا سفر شروع ہو جائے گا۔ وفاقی و صوبائی وزراء عقل سے کام لیں، غور و فکر کریں، راتوں کو اللہ کے سامنے جھکیں، دن میں اللہ کی مخلوق کے خدمت گار بنیں، مال جمع کرنے کی حرص سے نکلیں اور کروڑوں لوگوں کے بہتر مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔ اس پاک سرزمین کو بہت لوٹا گیا ہے اب اس کی خدمت بھی کریں۔ بدانتظامی بہتر انتظامات سے ہی ختم ہو سکتی ہے، خامیاں غور و فکر اور بہتر فیصلوں سے خوبیوں میں بدل سکتی ہیں۔ سیاست دانوں کو اپنے غیر ضروری بیانات سے بھی گریز کرنا چاہیے، ہر وقت بولتے رہنا ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہے، اچھا بولیں ورنہ خاموش رہیں۔ زندہ رہنے کے لیے صرف بولنا ہی ضروری نہیں۔
حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب کہتے ہیں کہ "پاکستان ہر نعمت سے مالا مال ہے لیکن سیاسی عدم استحکام اور غلط منیجمنٹ سے ملک کو نقصان پہنچا ہے۔ سود کی ادائیگی ملک کیلئے بڑا مسئلہ ہے آنے والا بجٹ حکومت کیلئے آسان ہو گا اور مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔" عارف حبیب کا یہ بیان کسی عام پاکستانی کے لیے تو نہیں یہ باتیں تو ان کے لیے ہیں جو معاملات کو چلا رہے ہین، جن کا وسائل پر قبضہ ہے، یعنی پاکستان نعمتوں سے مالا مال ہے تو قومی سطح پر ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا کام کس نے کرنا ہے، یقینا یہ ذمہ داری حکمرانوں کی ہے۔ اسی طرح مس مینجمنٹ بھی حکمرانوں یا سول بیوروکریسی کی حکمت عملی یا فیصلوں کی وجہ سے ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی ذمہ داری بھی کسی عام شہری پر عائد نہیں ہوتی ۔ عارف حبیب کی یہ ساری باتیں اس طبقے کے لیے ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عبد القادر میمن کے مطابق "ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، ڈیجیٹلائیزیشن پر کام ہونا چاہیے ۔" اب یہ بیان بھی کسی عام شہری کے لیے تو نہیں یہ پیغام بھی حکمرانوں اور ریاست کے اداروں کو چلانے والوں کے لیے ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن ہونی چاہیے بلکہ پاکستان میں تو کیش کو جس حد تک ممکن ہو محدود کر دیں، چھوٹے سے چھوٹا لین دین بھی کارڈ اور بینک کے ذریعے ہو، ویسے تو بہت زیادہ چیزیں خفیہ نہیں ہیں لیکن جہاں جہاں جو جو چھپایا جاتا ہے اداروں کو سب علم ہے اس لیے یہ تمام کام فوری طور پر ہونے چاہییں۔ سب سے ٹیکس لیں، حکومت اپنے اخراجات کم کرے، ٹیکس کے پیسوں سے حکمرانوں اور سرکاری افسران کو مراعات کا سلسلہ بند کریں، پینشن کو مسئلہ نہ بنائیں اس کا بہتر حل تلاش کریں، جو جتنا کماتا ہے اس سے آمدن کے حساب سے ٹیکس لیں ، حکومت اپنے اخراجات کم کرے ۔ خبروں اور میڈیا کوریج کے لیے غیر حقیقی ترقیاتی منصوبوں سے دور رہیں۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کو سہولیات بھی دیں۔ ٹیکس کی ادائیگی کا نظام بہتر بنائیں۔
جب ہم اپنے معاشی حالات اور انتظامات کو دیکھتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ واقعی ہم کسی اور دنیا میں رہتے ہیں اور مسائل کسی اور دنیا سے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ" ستائیس سو ارب روپے کے محصولات اسٹے آرڈرز کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ نے اپنا پہلا قانون پاس کیا جو کہ ٹیکس اصلاحات کے بارے میں ہے ۔ وزیراعظم نے ذمہ داری سونپی ہے کہ ٹربیونلز اور اپیل کا نظام اور اس کے بعد ریفرنس کے فیصلوں کے نظام میں اصلاحات کی جائیں۔"
ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے سب سے پہلے ریاستی اداروں کو ایک صفحے پر آنا ہو گا۔ معاشی ایمرجنسی کا نفاذ ضروری ہے ۔ جیسے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کو ہدف بنا کر کام کیا گیا ہے اس سے بھی زیادہ سنجیدگی اور سمجھداری کے ساتھ معاشی مسائل حل کرنے کے لیے کام کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے مزدوروں کے عالمی دن پر اچھا کام کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے عام آدمی کی مشکلات کا ذکر کیا ہے، معاشی اصلاحات کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وقت بہت کم ہے جب تک ہم ہنگامی حالت کا احساس نہیں کریں گے اس وقت تک کام کرنا مشکل ہو جائے گا ۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں
ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستا ہو جائیں
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
پارلیمنٹ کی ’’اجنبی‘‘عمارت
May 16, 2024