اسلام میں دوستی کے آداب
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے یعنی اس کے مذہب یا اس کی سیرت سے پہچانا جاتا ہے۔ پس انسان کو دوست بناتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کس کو دوست بنا رہا ہے؟‘‘(مسند احمد و ترمذی )انسان جب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارتے ہیں تو پھر ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں کچھ لوگوں کے ذہن اور خیالات ملتے جلتے ہیں تو ان میں ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی ایک دوسرے پر احسان کرنے کی وجہ سے آپس میں محبت اور تعلق پیدا ہو جاتا ہے بس یہیں سے دوستی کا آغاز ہوتا ہے، دوستی کی بنیاد ہمیشہ آسانی سے قائم ہو جاتی ہے لیکن اصل کام اس رشتہ کو نبھانا ہوتا ہے، دوستی کے رشتہ میں سب سے زیادہ نازک چیز دوست کی عزت نفس ہے۔ اگر اس کی عزت کوٹھیس پہنچ جائے تو پھر دوستی قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اس لیے سب سے اہم بات اسلام نے یہ سکھائی کہ دوستی کا مقصد صرف اللہ ہی کی خاطر دوستی رکھنا ہو۔ کوئی دنیا کا مقصد، کوئی کام نکلوانا، اور کوئی مطلب پورا کرنا نہ ہو۔ رسول اللہؐنے ارشاد فرمایا:’’یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اللہ کی خاطر محبت رکھنا اور اللہ ہی کی خاطر دشمنی رکھنا ہے۔‘‘
جب انسان پر خلوص دوستی رکھے تو اس کے لیے رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہاں ہیں وہ لوگ جو میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے آپس میں محبت اور دوستی رکھتے تھے۔ آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا اور آج میرے سائے کے سواء کوئی سایہ نہیں۔آپ ؐ کا عام مومن کے بارے میں یہ ارشاد ہے ’’ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حرام ہے اس کی جان، اس کی عزت اور اس کا مال۔‘‘ ایک عام مسلمان کی عزت کا احترام کرنا بھی ضروری ہے تو پھر جس سے انسان خصوصی تعلق رکھتا ہے اس کی عزت کا احترام کتنا ضروری ہو گا۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐنے فرمایا۔ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان بندے کو کسی ایسے موقعہ پر بے یارومدگار چھوڑ دے گا جس وقت اس کی بے عزتی ہو رہی ہو اور اس کی آبرو کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی مدد نہ کرنے والے شخص کو ایسی جگہ اپنی مدد سے محروم رکھے گا جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کا خواہش مند ہو گا اور جو کسی مسلمان کی ایسے موقع پر مدد کرے گا جہاں اس کی بے عزتی ہو رہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی ایسے موقع پر مدد فرمائے گا جب وہ مدد کا طلب گار ہو گا۔‘‘اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کے اندر مختلف مقامات میں ان چیزوں سے منع فرمایا جو تعلقات کے ٹوٹنے کا سبب بنتی ہیں۔ خصوصاً سورۂ حجرات میں تفصیل سے ان چیزوں کا ذکر فرمایا جن سے دوسرے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آپس میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے سے منع فرمایا۔ رسول اللہ بھی اپنے جان نثار صحابہ کرام سے مزاح فرماتے تھے۔ لیکن اس کے بھی آداب سکھائے۔ مزاح اس انداز میں ہو کہ دوسرے کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور ایسے مزاح سے منع فرمایا جو ناگواری کا باعث بنے۔
اللہ تعالیٰ نے آپس کے تعلقا ت کے لیے دوسری نقصان دہ چیز یہ بیان فرمائی کہ ولا تنابزوا بالالقاب (تم آپس میں ایک دوسرے کو چڑانے کے لیے نام نہ ڈالو)۔آج کے معاشرہ میں یہ بات بہت عام ہو رہی ہے کہ کسی کے رنگ یا شکل یا کسی خاص عادت کی بنا پر دوسرے انسان کا نام ڈال دیا جاتا ہے۔ یا کسی کے نام یا ذات کو بگاڑ کر نام ڈال دیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم نے جس بات سے خصوصی طور پر منع فرمایا اس میں دوسرے انسان کا دل دکھانا بھی شامل ہے اور اگر اس نام میں دوسرے کی کمزوری کا ذکر ہو تو اس میں طعنہ دینے کا بھی گناہ ہو گا جس سے کسی کی عزت نفس مجروح ہوتی رہے ۔ تیسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ ولا تلمزوا انفسکم۔ (تم آپس میں عیب جوئی نہ کیا کرو)۔ واقعی یہ عادت آپس کے تعلق اور ایک دوسرے کی عزت نفس کو بگاڑنے میں بڑا اثر رکھتی ہے کہ انسان دوسرے کے عیب اور اس کی برائی کی جستجو میں لگا رہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم۔ (یعنی بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں)۔ اس ارشاد باری کی بنا پر آپس میں بدگمانی نہیں رکھنی چاہیے۔ پھر فرمایا ولا یغتب بعضکم بعضا۔(اور آپس میں ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو)یعنی دوسرے کی غیر موجودگی میں اس کے عیب نہ بیان کیا کرو۔ یہ وہ سنہری اصول ہیں جن سے ایک اسلامی فلاحی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔جہاں ہر مسلمان کی عزت کا احساس رکھا جاتا ہے۔
احکام اسلام میں دوسرے انسان کی عزت نفس کا اس طرح خیال رکھنے کا حکم ہے کہ سورۂ بقرہ میں جہاں محتاجوں کی امداد کا ذکر ہے وہاں ارشاد فرمایا کہ تم ان لوگوں کی بھی مدد کرو جو لوگوں سے لپٹ لپٹ کر نہیں مانگتے آپ ان کی پیشانیوں سے پہچان سکتے ہیں حالانکہ لوگ انہیں مالدار سمجھتے ہوں۔معلوم ہوا کہ ایسے سفید پوش اور عزت کا خیال رکھنے والے لوگوں کی مدد کرنے میں خاص ثواب ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے یہ بتانا بھی ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ یا صدقہ کا پیسہ ہے بلکہ ہدیہ اور تحفہ کہہ کر ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔
جب انسان کسی سے دوستی کرتا ہے تو پھر اس انسان پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے ذاتی اور نجی مسائل کا تذکرہ بھی کرتا ہے اور ان مسائل کے بار ے میں اس سے مشورہ بھی طلب کرتا ہے۔ رسول اللہ کاارشاد مبارک ہے المستشار مؤتمن، ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ بات اس کے پاس بطور امانت رکھی گئی ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ جب کوئی کسی سے مشورہ طلب کرے تو اب اس کے نجی مسائل اس کے پاس بطور امانت محفوظ ہیں اور دوسروں کے سامنے ان باتوں کا تذکرہ نہ کیا جائے ۔