(نسیم الحق زاہدی)
غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف امریکی و یورپی طلباء کے احتجاجی مظاہروں نے عالمی سامراج کی نیندیں اڑا دی ہیں اسی لئے ساری دنیا کو جمہوریت اور آزادی کا سبق پڑھانے والا امریکہ جمہوری اقدار کو فراموش کرکے طاقت کے ذریعہ طلبہ کی تحریک کو کچلنے پر مصر ہے۔جس ملک کے حکمران اس سفاک اسرائیل کی مکمل سیاسی، سفارتی، اقتصادی اور عسکری حمایت کیلئے سر گرم عمل ہیں جو سات ماہ سے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے۔اسی امریکہ کی جارج واشنگٹن،کولمبیااورہاروورڈیونیورسٹی سمیت چالیس سے زائد معروف جامعات کے طلبہ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی خاطراپنی حکومت سے ٹکرانے پر پر آمادہ ہوگئے ہیں وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ خیمہ زن سروں اور گلوں میں سفیدو سیاہ فلسطینی اسکارف (کفیہ) لپیٹے سراپا احتجاج ہیں۔جنہوں نے عالمی استعمار کو بو کھلا دیا ہے۔ جابجا فلسطینی پرچم لہرارہے ہیں۔ یونیورسٹی کے دھرنے میں ’’ہم کیا چاہتے ہیں؟ فلسطین کی آزادی…چھین کے لیں گے آزاد ی‘‘کا نعرہ گونج رہا ہے۔سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ان مظاہروں میں امریکہ کے انصاف اور امن پسند اساتذہ بھی جوق در جوق شامل ہورہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ مطالبات ایسے وقت میں کئے جا رہا ہے جب امریکی حکومت نے حال ہی میں اسرائیل کو 62 ارب ڈالرز کی فوری امداد کا بل پاس کیا ہے۔ فلسطینی عوام کی حمایت میں امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والے مظاہروں کاسلسلہ برطانیہ تک پھیل گیا ہے۔یاد رہے کہ امریکہ بھر میں 50 سے زائد جامعات کے طلبہ فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کر رہے ہیں جس پر گذشتہ دنوں میں پولیس نے طلبہ و اساتذہ سمیت 1000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ پھر بھی فلسطینی حمایتی تحریک تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ کی جامعات کسی بین الاقوامی مسئلے پر احتجاج کی وجہ سے عالمی توجہ کا مرکز بنی ہیں۔اس سے قبل بھی امریکہ کی یونیورسٹیوں سے شروع ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں کئی سماجی مسائل اجاگر ہوئے ہیں اور کئی مرتبہ یہ حکومتی فیصلوں اور قانون سازی پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔1968 ء میں ویت نام جنگ کے خلاف امریکہ میں ملک گیر تحریک کا آغاز کولمبیا یونیورسٹی سے ہی ہوا تھا۔ طلبہ کے احتجاج نے اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ حالانکہ حکومت نے تحریک کو کچلنے کیلئے جامعات میں فوج بھیج دی اور ہزاروں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا تاہم بعد میں اسے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ ساٹھ سال قبل طلبہ کی تحریک نے امریکہ کی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔ کیا تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے والی ہے؟ نیو یارک ٹائمز نے اعتراف کیا ہے کہ’’ملک بھر کی درس گاہیں بڑھتے احتجاجات پر قابو پانے میں ناکام ہیں‘‘۔طلبہ کے ان مظاہروں کا امریکی معاشرے اور امریکی سیاست پر کافی اثر ہورہا ہے۔ امریکہ میں جہاں یہودیوں کا خاصا اثر و رسوخ پایا جاتا ہے، وہاں رائے عامہ تیزی سے اسرائیل مخالف ہو تی جارہی ہے۔ غزہ میں اسرائیل ڈیفنس فورسز کی درندگی کے مناظرنے امریکی طلبہ کو افسردہ بھی کیا اور برہم بھی۔ وہ چاہتے ہیں کہ غزہ میں نسل کشی فوراً بند کی جائے، امریکی حکومت اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگائے اور امریکی جامعات ان تمام صنعتی اور تجارتی اداروں کے ساتھ لین دین اور تعلقات منقطع کرلیں جو اسرائیلی جارحیت کی حمایت اور سرپرستی کرتے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں میں پوری دنیا کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان میں ہندوستانی، پاکستانی، عرب، افریقی، امریکی، یورپی اور دیگر ممالک کی مختلف نسلوں کے طلبہ شامل ہیں۔ ان کی تقریباً 80 فیصد تعداد احتجاج میں شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج کتنا موثر اور طاقتور ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طلبہ کے اس احتجاج پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو تک کو بو کھلا کر رکھ دیا ہے۔ نیتن یاہو نے احتجاجی طلبہ کو’’یہود مخالف ہجوم‘‘ (mob Semitic۔ Anti) قراردیتے ہوئے نازیوں سے ان کا موازنہ کیا ہے۔ دنیاکی تاریخ اٹھاکر دیکھ لی جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ طلبہ کی تحریکوں نے بڑی بڑی اور ظالم حکومتوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کا تشویش میں مبتلا ہو نا اور امریکی ارباب اقتدار کا فکر مند ہونا بالکل درست ہے۔ سی این این اور فاکس نیوز سمیت امریکہ کے مین اسٹریم یہودی میڈیا نے احتجاج کرنے والے طلباء کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی حمایت کا اظہار کیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر امریکی آئین میں آزادی اظہار اور انسانی حقوق کا تحفظ کہاں ہے؟قبل ازیں امریکی طلبہ اپنے بین الاقوامی سطح پرہونے والی ناانصافی اور ظلم کے خلاف ماضی میں بھی تحریکیں چلا چکے ہیں۔ 1950 ء کے آواخر میں سیاہ فام باشندوں کے خلاف صدیوں سے رائج امتیازی سلوک کے خاتمہ اور شہریوں کے مساوی حقوق کی حصول یابی کیلئے چلائی گئی تحریک میں بھی امریکی طلبہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔1960 ء کے آواخر میں ویت نام جنگ کے خلاف ملک گیر تحریک کی شروعات بھی ا مریکہ کی جامعات سے ہی ہوئی تھی۔ اس تحریک کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا اور 1973 ء میں رچرڈ نکسن کو جنگ بند کرنے اورویت نام سے افواج کے انخلا کا اعلان کرنا پڑا۔ بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کی اندھی حمایت سے امریکی شہریوں کا ایک بڑا طبقہ اس قدر ناراض ہے کہ صدر انتخابی مہم میں حصہ لینے جہاں جارہے ہیں عوامی ناراضگی ان کا تعاقب کررہی ہے۔ 81سالہ بائیڈن کو ایسے ایسے تضحیک آمیز القابات سے نوازا جارہا ہے جن کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ غزہ کی نسل کشی میں نیتن یاہو کی پشت پناہی کرنے کے سبب مظاہرین نے بائیڈن کو ایک نیا نام دیا ہے Joe Genocide۔ صہیونیوں اور ان کے مغربی دلالوں کا یہ دیرینہ حربہ رہاہے کہ وہ اسرائیل کی انسانیت سوز پالیسیوں پر کی جانے والی تنقید پر یہودی دشمنی کا واویلا شروع کرکے اپنے نکتہ چینوں کی زبان بند کروادیتے ہیں۔ لیکن اس بار امریکی دانشوروں و سیاستدانوں نے ریاست کے اس جعلی بیانیے کو بے نقاب کر دیا ہے۔۔ سینیٹر برنی سینڈرز جیسے سیکڑوں معروف امریکی اشخاص اسرائیلی وزیر اعظم کی طلبہ کی تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ عالمی رائے عامہ بہت تیزی کے ساتھ فلسطین کے حق میں ہموار ہو رہی ہے اور اسرائیل کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ نیتن یاہو کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کی قیادت اور ان کا ملک اس وقت دنیا میں تنہا پڑ گئے ہیں۔ انہیں صرف امریکہ اور مزید 2سے 3 ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ پوری دنیا اسرائیل کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب سنگین جنگی جرائم کے الزام میں اسرائیلی قیادت کو ہی گرفتار کرلیا جائے گا انشاء اللہ۔