ریڈیو پاکستان کے پنجابی پروگرام
اصغر ملک
ریڈیو پاکستان نے دیگر صوبائی اور علاقائی زبانوں کے ساتھ آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی پنجابی کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہر صوبے کا تمدن و ثقافت اور کلچر لوک داستانوں کے ساتھ لوک گیتوں جو صدیوں سے ہمارے ہمسفر چلے آرہے ہیں اپنے اندر بڑی اہمیت اور جاذبیت رکھتے ہیں صوفیاء کرام کے کلام کو دیکھا جائے تو لاجواب ہے میاں محمد صاحبؒ کھڑی شریف والوں کے سیف الملوک پرنظر ڈالی جائے تو ان کو تو تشبیہوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے سید وارث شاہ صاحب کو پنجاب کا شیکپیر مانا جاتا ہے حضرت خواجہ غلام فرید صاحبؒ کو روہی کا بادشاہ جانا جاتا ہے اسی طرح حضرت سلطان باہو صاحبؒ، بابا بلھے شاہ صاحبؒ شاہ حسینؒ‘ ہاشم شاہ‘ علی حیدر اور دیگر حضرات کے کلام کو اس انداز میں خوش رنگ گلوکاروں کی آوازوں میں نشر کیا جا رہا ہے جو دوسرے کسی کے حصے میں ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ آج بھی دیگر ذرائع ابلاغ ریڈیو پاکستان کی بنائی اور گائی ہوئی دہنوں کی نقالی کرتے سنائی دے رہے ہیں اسی طرح سر فضل حسین کی رہائش گاہ جہاں آل انڈیا ریڈیو سے لے کر ریڈیو پاکستان کے وجود میں آنے کا اعلان ہوا تھا بہت سارے لوگوں کو اس جگہ کا پتہ نہیں ہے کہ محکمہ دیہات سدھار کے تعاون سے ریڈیو لاہور سے دیہاتی بھائیوں کا پروگرام نشر ہوا کرتا تھا جس کے ڈائریکٹر شیخ محمد رحیم جو بھیرہ کے رہنے والے تھے اور چودھری صاحب کا کردار ادا کرتے ان کے ساتھ اوم پرکاش‘ رام داس اور طفیل فاروقی فتح دین دودیہاتی بنا کرتے اور یہ پروگرام پنجابی کا مقبول پروگرام ہوتا تھا پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بہت سارے لوگ یہاں سے انڈیا چلے گئے اور اس خلاء کو پر کرنے کے لئے نئے لوگوں کی ٹیم بنانے کے لئے آڈیشن کا سلسلہ شروع کیا گیا بہت سارے لوگ قسمت آزمانے آتے رہے لیکن قسمت نے محکمہ خوراک کے ایک بابو مرزا سلطان بیگ کے سر پر ہما کو بیٹھا دیا جو بعد میں نظام دین کے نام سے جانے گئے چودھری کے کردار کے لئے عبدالطیف مسافر جو اردو کے انا ئونسرتھے منتخب ہو گئے اقبال شیخ بھی کچھ عرصہ شہاب دین بنے لیکن وہ بھی پائوں نہ جما سکے وجہ تھی کہ وہ بنیادی طور پر ڈرامہ آرٹسٹ تھے اسی طرح چودھری سلطان علی کھوسٹ چاچا خیرو کے روپ میں آئے جو بہت کامیاب رہے لیکن ان کی خوبیوں کی وجہ سے ان پر بچوں کے پروگرام میں الٹے پلٹے عورتوں کے پروگرام میں ماسی مہرو اور چاچا ہفتے میں تین پروگرام جن کو وہ لکھتے اور یہ تینوں کردار اس خوبی سے ادا کرتے کہ خود ریڈیو کے افسران ان کے فن کے گروید ہو گئے میں ان دنوں میوزک پروگراموں کے علاوہ ڈراموں اور فیچر پروگراموں میں حصہ لیا کرتا تھا ہوا یہ کہ ایک دن میں فیچر پروگرام میں شرکت کے لئے ریڈیو آیا تو ہمارے پروگرام آرگنائزر شیخ حمید صاحب برآمدے میں پریشان کھڑے تھے مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے اچھا آپ آگئے ہیں سلطان کھوسٹ صاحب اندر سٹوڈیو میں بیٹھے ہیں وقت ہو رہا ہے دیہاتی پروگرام کا نظام دین اور مسافر صاحبان نہیں آرہے آغا بشیر سٹیشن ڈائریکٹر کا حکم ہے آج کا دیہاتی پروگرام آپ دونوں کے ذمے ہے اور وہ آغا صاحب گھر میں سننے کے منتظر ہیں میں شیخ حمید صاحب کے ساتھ سٹوڈیو چلا گیا اور سلطان کھوسٹ صاحب کہنے لگے اچھا ہوا ملک یار آپ آ گئے میں چاچا خیرو اور تم ملک صاحب اتنی دیر میں سرخ بتی جل گئی اور مصطفی علی ہمدانی صاحب نے اناونسمنٹ کر دی کہ آیئے اب دیہاتی بھائیوں کا پروگرام سنتے ہیں اس وقت پروگرام ریکارڈ نہیں ہوا کرتے تھے نہ ہی ہمیں پتہ چلا کہ پروگرام کیسا آن ائیر گیا ہے دوسرے دن مجھے سٹیشن ڈائریکٹر آغا بشیر صاحب نے فون پر شاباش دی اور چائے کے لئے دفتر بلوا لیا لہذا میں جب ریڈیو پہنچا تو سلطان کھوسٹ صاحب آغا بشیر صاحب کے ساتھ میری بات بھی کر رہے تھے آغا بشیر نے مجھے گلے لگایا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا آج سے باقی پروگراموں کے علاوہ دیہاتی بھائیوں کے پروگرام میں شرکت کیا کریں گے عرصہ بعد جب ریڈیو پاکستان لاہور کی نئی بلڈنگ مکمل ہو گئی تو شمس الدین بٹ صاحب سٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی فرمائی اور محترم سید سلیم گیلانی کا دور آیا تو انہوں نے میرے دوسرے پروگرام ختم کرکے دیہاتی بھائیوں کے پروگرام کا نام سوہنی دھرتی رکھ دیا جو آج تک موجود ہے۔ مسافر صاحب نظام دین سے ناراض ہو کر پروگرام چھوڑ گئے تو سلیم گیلانی نے سوہنی دھرتی کے لئے نظام دین کے ساتھ منسلک کر دیا اور اس کے چند ماہ بعد بہت ساری آڈیو کیسٹ والی کمپنیوں نے ہم سے رابطہ کیا اور ہماری بات چیت کے تین آڈیو کیسٹ بازار میں ریلز کر دئیے اور وہ کامیاب اس لئے ثابت ہوئے کہ ہم نے پنجابی اکھان‘ پنجابی کے شعر‘ لوک داستانوں کے کچھ حصے‘ دانائو ںکے قصے علم و ادب میں رہتے ہوئے کچھ مزاحیہ حصے بھی سنائے ہمارے پنجابی میں الڑ بلڑ باوئے دا سے لے کر ہائے وئے چناں دیا لاڑیا تک پنجابی اکھان، شعر اور باتیں موجود ہیں جو آج کے جدید دور میں کسی الیکٹرونک میڈیا سے سنائی نہیں دے رہے ہمارے ان آڈیو کیسٹوں کی ایسی دھوم مچی ہوئی تھی کہ بھانڈوں اور بھڑویوں نے ہماری نقل تو کیا کرنی تھی ان لوگوں نے لغویات اور پھکڑپن کا سہارا لیا اور سی ڈی کے ذریعے ایسا گندپھیلایا کہ ان کے تعفن سے سارا معاشرہ آلودہ ہو گیا ۔ ریڈیو پاکستان کو ایسے پروگرام ترتیب دے کر نشر کرنے چاہیں جن سے فحاشی کے جن کا سد باب ہو سکے ریڈیو پاکستان ہر دستی کام کرنے کا ساتھی ہے اور اس کے اندر جوچند کوئے اس کی منڈیر پر منڈلا رہے ہیںحکام بالا کو ان سے نجات حاصل کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔