منگل ‘ 8؍ رجب المرجب 1436ھ ‘ 28؍ اپریل 2015ء
پیپلز پارٹی کیلئے ’’دعائے صحت‘‘ کی اپیل
بی بی کی شہادت کے بعد جب سے آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی ہے۔ نجانے اس عوامی جماعت کو کس حاسد کی نظر لگ گئی کہ اس کی حالت دن بدن پتلی ہونا شروع ہو گئی۔ کرپشن، لوٹ مار اور سفارش کی تمام تر امدادی کارروائیوں کے باوجود اسکی حالت بہتر نہیں ہو سکی البتہ اسکے وارثین خوب پھلنے پھولنے لگے ہیں۔ 2013ء کے الیکشن نے برسراقتدار پیپلز پارٹی کو بستر مرگ پر پہنچا دیا۔ اسکے باوجود ورثا نے اس پر توجہ دینے کی بجائے بے نیازی کی چادر اوڑھ لی ہے۔ جب سانسیں اکھڑنے لگیں تو فوری طور پر نیا خون دیا جانے لگا مگر بلاول کی تمام حشر سامانیاں اور آنیاں جانیاں رائیگاں گئیں کیونکہ پدر بزرگوار آصف علی زرداری کو خطرہ پڑ گیا کہ کہیں یہ نیا طبیب ناتجربہ کاری کے ہاتھوں غلط ہاتھوں میں نہ چلا جائے اور بڑی مشکلوں سے دم توڑتی پارٹی کو اعزا و اقارب کے ساتھ مل کر پھر زندہ نہ کر دے۔ چنانچہ پہلی فرصت میں اسے مزید تربیت کیلئے لندن بھجوا دیا۔ نئی ڈاکٹر کے طور پر کبھی آصفہ کبھی بختاور کا نام لیا جانے لگا مگر یہ بیل بھی خاندانی سیاست کے باعث منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اور پارٹی کا تمام کاروبار پرانے گھاگ سیاستدانوں اور کاروباری لوگوں نے سنبھال لیا۔ دوسری طرف بستر مرگ پر پارٹی کی نبضیں اس وقت ڈوبنے لگیں جب بلدیاتی الیکشن نے پیپلز پارٹی کو اس کی دیرینہ حریف جماعت اسلامی کی سطح پر پہنچا دیا۔ اب سوائے شرمندگی کے اور کیا باقی رہ گیا ہے۔ سو اسکے بعد اب چاہے لیاری کے آئی سی یو میں رکھ کر اسے مصنوعی سانسیں دی جائیں یا علامتی طور پر زندہ رکھا جائے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ عوام الناس سے اپیل کی جائے کہ وہ شہیدوں کی اس جماعت کی صحت یابی کیلئے دعائیں کریں۔ مگر یاد رہے کہ …ع
’’کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے‘‘
٭٭٭٭٭٭
عمران خان نے اور شاہ محمود قریشی جوانوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں: جاوید ہاشمی
خدا کرے یہ کھیل صرف کھیل تک ہی محدود رہے اور اس سے جوانوں کا مستقبل متاثر نہ ہو۔ ویسے دیکھا جائے تو کوئی ایک بھی ایسی جماعت یا رہنما نظر نہیں آتا جو جوانوں کے مستقبل سے نہ کھیل رہا ہو۔ اس کی ترقی اور بہتری کے لئے کوشاں ہو۔
بھٹو سے لے کر نواز شریف اور عمران تک تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے جوانوں کو مسخر کیا اور انکے جذبات بھڑکا کر انہیں آنے والے بہتر مستقبل کی نوید سنائی۔ مگر نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ بیروزگاری اور ناخواندگی کی شرح کا حساب کتاب کر کے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ سب سے زیادہ کھلواڑ جوانوں سے ہی کیا گیا۔ انکے جذبات اور خوابوں کو کچلا گیا۔
سینے پہ گولی کھائیں گے فلاں کو جتوائیں گے
کے نعرے لگاتے یہ جوان کل بھی بے کار و تہی دست تھے آج بھی ہیں۔ یہ رونا روتے روتے عوامی شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا۔
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
یہ سیاسی مداری ڈگڈی بجا کر نوجوانوں کا ہجوم جمع کر لیتے ہیں اور انقلاب و تبدیلی کے نعرے لگا کر انہیں اقتدار تک پہنچانے والی سیڑھی بناتے ہیں۔ بعد میں بھول جاتے ہیں۔ اس حساب سے تو اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اگر ہمارے یہ رہنما نوجوان کو واقعی اپنا دست بازو بناتے تو آج ہمیں اپنی ترقی کیلئے امریکہ، روس اور چین کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
خود باغی جاوید ہاشمی سے زیادہ اس بات کا درد کون محسوس کر سکتا ہے کہ جماعت اسلامی سے مسلم لیگ اور پھر تحریک انصاف تک کا سفر ایسے ہی پرخار راستوں سے اٹا ہوا ہے۔ کہیں بھی آسان راہ دکھائی نہیں دیتی۔
٭٭٭٭٭٭
پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکست نے بنگلہ دیش کرکٹروں کو مالا مال کر دیا
ایک طرف مسرت اور شادمانی کا یہ حال ہے کہ حسینہ واجد اپنے کاغذی شیروں کے صدقے بلائیں لے رہی ہے۔ جنہوں نے پہلی مرتبہ ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہمیں کرکٹ کے میدان میں شکست دی۔ تو دوسری طرف ہمارے وقار یونس جیسے ماہرین کو بھی بعداز قتل جفا سے توبہ کرنے کا خیال آیا ہے اور انہیں احساس ندامت نے گھیر لیا ہے جو اب دل پر پتھر رکھ کر مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو وہاں کی کرکٹ ٹیم ہی نہیں اسکے تمام آفیشل و نان آفیشل اور پروفیشنل کب کے گھروں کو سدھار چکے ہوتے مگر آفرین ہے ہمارے وقار یونس اور کرکٹ بورڈ والوں پر کہ وہ ابھی تک ڈھٹائی سے اپنی جگہ پر برقرار ہیں۔ شاید اس لئے کسی نے کہا تھا ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ اب اگر بنگلہ دیش کی حکومت حیرت اور خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کھلاڑیوں کے منہ موتیوں سے بھر رہی ہے انہیں سونے میں تول رہی ہے تو ہماری حکومت کا بھی کچھ فرض بنتا ہے۔ اگر اسے یاد نہیں رہا تو ہم یاد دلا دیتے ہیں۔ ہر غلطی کی سزا ہوتی ہے۔ اس حساب سے اب ان کرکٹ دشمن کھلاڑیوں اور بورڈ کے عہدیداروں کو بھی بیک جنبش قلم انکے عہدوں اور مراعاتوں سے محروم کر کے عام شہری بنا دیا جائے۔ بس بہت ہو چکی یہ نوابوں اور شہزادوں والے اللے تللے کروڑوں روپے سالانہ وصول کرنے کے باوجود اگر یہی رزلٹ دینا ہے تو پھر قومی خزانے کو مزید نقصان سے بچایا جائے۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں اچھے سے اچھے ماہرین اور کھلاڑی دستیاب ہیں بس جوہری کی نگاہ کا ہونا ضروری ہے۔ اب ایسے لوگوں کو موقع ملنا چاہئے جو واقعی قوم اور ملک کی عزت کیلئے جان لڑا سکتے ہوں۔ انہیں آگے لا کر واقعی ’’شاہین‘‘ بنایا جائے۔