پیر ‘ 6 شعبان المعظم 1436ھ ‘ 25 مئی 2015ئ
”زندہ دلان لاہور نے دہشت گردوں کو شکست دیدی“
پاکستان اور زمبابوے کے درمیان ٹی جے انٹرنیشنل میچ کے موقع پر تمام تر خدشات کے باوجود زندہ دلان لاہور نے جس جوش اور مسرت کا اظہار کیا اس سے جہاں باقی پاکستانیوں کا سیروں خون بڑھا ہے وہاں ہمارے دشمنوں کا کلیجہ جل بھن کر کباب ہو گیا ہو گا۔ لاہور میں نماز جمعہ کے بعد شدید گرمی کے باوجود ہزاروں شہری پارکوں اور نہر پر جانے کی بجائے قدافی سٹیڈیم کی طرف یوں رواں دواں تھے جیسے کبھی میلہ چراغاں یا ہارس اینڈ کیٹنل شو کے موقع پر میاں میر اور فورٹریس کی طرف ٹولیوں کی شکل میں لوگ روانہ ہوتے تھے اور یہی صورتحال گذشتہ روز دوسرے میچ کے موقع پر بھی دیکھنے میں آئی، شدید گرمی کے باوجود ہزاروں افراد قذافی سٹیڈیم یہ میچ دیکھنے پہنچے۔
لوگوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ہیں کہ 6 برس بعد دہشت گردی کیخلاف ایک طویل اور صبر آزما جنگ انہوں نے جیت لی ہے۔ خوف و ہراس کے بجائے ہر طرف مسرتوں کا یہ عالم خدا کرے ایسا ہی رہے۔ لاہور پاکستان کا دل ہے اور پاکستان کے دل نے ثابت کر دیا کہ کوئی خوف کوئی خطرہ اسے چھو کر نہیں گزرتا۔ دہشت گردوں یا دشمن ہر طرف سے حملہ آور ہونے کے بعد منہ کی کھا چکے ہیں۔ عوام کل بھی متحد تھے آج بھی اپنے ملک کی عزت اور حرمت کے لئے متحد ہیں اور اپنے وطن کا نام ایک بار پھر روشن کر رہے ہیں جہاں انہیں میچ جیتنے کی خوشی ہے۔ وہاں وہ اپنے اندرونی و بیرونی دشمنوں کی شکست پر فرحاں و شاداں بھی ہیں اور سب کے لبوں پر یہی ایک دعا ہے۔
زمین کی گود رنگ سے ترنگ سجی رہے
خدا کرے یہ کہکشاں یوں ہی سجی رہے
کھیل میں جس کی بھی ہار جیت ہو وہ اپنی جگہ مگر عوام کے جوش و خروش اور جذبوں کے آگے سب ہیچ ہے۔ یہی وہ جذبہ تعمیر ہے جو قوموں کو زندگی عطا کرتا ہے، خوف سے نجات اور دہشت گردوں کو شکست دینے کا عزم عطا کرتا ہے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
احتجاج کا سویا شیر جاگ گیا، حکومت نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہو جائے: فاروق ستار
یہ احتجاج کا سویا ہوا شیر اس وقت کیوں نہیں جاگا جب کراچی میں ایم کیو ایم کا راج تھا۔ ایم کیو ایم حکومت میں شامل تھی۔ پانی کا یہ بحران کراچی میں آج سے نہیں عرصہ دراز سے عوامی زندگی اجیرن بنا رہا ہے۔ مگر جب ایم کیو ایم حکومت میں تھی تو اس وقت کے لائق فائق عوامی وزیروں اور گورنر نے کراچی کے اس سب سے اہم مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
یہ سب اس وقت کیوں اس احتجاجی شیر کو لوریاں دے کر سلاتے رہے۔ اس وقت بھی عوام اسی طرح بالٹیاں اور مٹکے اٹھائے، گلی گلی العطش العطش کے نعرے لگاتے ہوئے پانی کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔
آج جب ایم کیو ایم حکومت سے باہر ہے تو اسے احتجاج کا خیال آگیا اور پانی کی کمیابی کا احساس ہوا گویا عوام کی تکلیف نہیں اقتدار سے دوری کی پیاس ہے جس نے آگ لگائی ہے اور ایم کیو ایم والے اب یہ آگ لے کر سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
حکومت سندھ بھی اس مسئلہ کو ایزی لے رہی ہے۔ ہمیشہ سوئے رہنے والے وزیراعلیٰ ”ستے شاہ“ کی آنکھ نجانے کب کھلے گی اور وہ پانی، پانی کی صدائیں سن پائیں گے یا احتجاجی شیر کے دھاڑنے پر وہ چونک اٹھیں گے۔
اس گرمی میں پانی کی کمیابی قیامت سے کم نہیں مگر صوبائی حکومت عجب شان بے نیازی سے سب کچھ جلد اچھا ہوگا، کا گانا سنا رہی ہے۔ کب اچھا ہوگا جو کام گذشتہ کئی دہائیوں اچھا نہیں ہو سکا متحدہ اور پیپلز پارٹی کے دوسرے 2 مرتبہ دور حکومت میں کس نے روکا تھا انہیں اچھا کام کرنے سے، کیا یہ حقیقت نہیں کہ واٹر مافیا کو ان دونوں جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے جو روزانہ کروڑ روپے کما رہا ہے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
12 ویں پوزیشن حاصل کرنے والے سی ایس ایس میں نابینا نوجوان کو میرٹ پر ملازمت نہیں ملی
اتنے اچھے تعلیمی ریکارڈ کے باوجود اس نابینا نوجوان کا المیہ یہ ہے کہ آنکھوں والے اندھوں کے شہر میں یہ رہتا ہے۔ ہمارے نظام اور نظام کو چلانے والوں کی یہی سب سے بڑی خرابی ہے کہ وہ حقدار کو اس کا حق نہیں دیتے۔ سی ایس ایس پاس کرنا ہر پڑھے لکھے نوجوان کا خواب ہوتا ہے۔ مگر قسمت کی دیوی کسی کسی پر مہربان ہوتی ہے۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان فیصل بھی انہی خوش لوگوں میں شامل ہیں جن پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی۔ مگر ہمارے بیوروکریٹس میں موجود بد نما چہروں اور دل والے ہر جگہ موجود ہیں۔ وہ بھلا ایک معذور شخص کی اتنے اہم امتحان میں کامیابی آسانی سے کیسے ہضم کر سکیں گے۔
اسلیئے انہوں نے فیصل مجید کو بھی نہیں بخشا اور اسے بھی تمام تر کامیابیوں کے باوجود من پسند ملازمت نہیں دی گئی اور وزارت اطلاعات و نشریات میں تقرری کا پروانہ تھما دیا۔
شاید گورنمنٹ کے نزدیک اطلاعات و نشریات کا ادارہ ایسا ہی گیا گزرا ہے جہاں راندہ¿ درگاہ قسم کے افسران کو تعینات کیا جاتا ہے۔ اگر فیصل کو اس کی من پسند جگہ پر تعینات کیا جاتا تو شاید وہاں آنکھوں والوں نے جو اَت مچایا ہوتا ہے اس میں خلل پڑ سکتا ہے۔ اپنے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی بیوروکریسی والے اجازت کہاں دے سکتے ہیں۔
چلو اچھا ہی ہوا کہ فیصل مجید آنکھوں والوں کی دنیا میں من پسند ملازمت حاصل نہیں کر سکا۔ ورنہ وہاں قدم قدم پر اسے آنکھوں والوں کی مخالفت اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ اب وہ آرام سے وزارت اطلاعات و نشریات میں کام کریں جہاں سب حکومتی زبان بولتے ہیں۔ ان کے آنکھوں پر ویسے ہی پہلے کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ گویا یہاں فیصل مجید کو اجنیت کا زیادہ احساس نہیں ہوگا اسلئے صبر و شکر کریں۔ورنہ کیا خبر کہ ان کی یہ خبر پڑھ کر ہمارے سخی حکمران اسے ریوڑیاں بانٹنے پر لگا دیں۔ ویسے پولیس اور کسٹم بھی زیادہ بری جگہ نہیںوہاں بھی کافی گنجائش نکل سکتی ہے۔ فیصل مجید کے لئے....