منگل‘ 5؍ جمادی الاّول ‘1439 ھ‘ 2 3 ؍ جنوری 2018ء
سرداروں سے اثاثوں کے بارے میں نہیں پوچھا جا سکتا، سردار اسلم رئیسانی کی انوکھی منطق
جی ہاں کیوں کہ یہ ان کے آبائو اجداد کو زیادہ تر انگریزوں کی نوکری چاکری کے صلے میں ملی ہیں یا پھر انہوں نے دھونس اور طاقت کے بل بوتے پر غریبوں سے چھینی ہوئی ہیں۔ ورنہ کوئی آسمان سے یہ سب کچھ اپنے نام لکھوا کر نہیں آتا۔ قبائلی معاشرے میں سرداری نظام میں طاقت ور قبیلے یا سردار کمزور قبیلے اور انکے سرداروں کو مار بھگا کر ان کی اراضی پر قبضہ کر لیتے یا انہیں غلام بنا کر ان کے جان و مال اور اراضی کے مالک بن بیٹھے۔ یہ تو سنجیدہ بات ہے، مگر سارے بلوچستان کے یہ خوش گلو خوش زباں سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی جو سیاسی میدان اتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں مگر ان کی زبان ہمیشہ کوئی نہ کوئی نیا جملہ ادھر ادھر پھینکتی رہتی ہے۔ اب نیب میں اپنے خلاف اثاثوں کی تفصیلات اور کروڑوں روپے اپنے بھائی لشکری رئیسانی کو دینے کی تحقیقات کے سلسلے میں پیش ہوئے تو اپنی روایتی ظریفانہ طبیعت ہاتھوں مجبور ہو کر یہ فصیح و بلیغ جملے ارشاد فرمائے کہ سرداروں سے انکے اثاثے پوچھے نہیں جاتے اس طرح غیر قانونی بھرتیوں کا بھی سوال بلا جواز ہے کیونکہ اگر وزیر اعلیٰ کلرک چپڑاسی بھرتی نہ کرے تو پھر اسکا کیا کام ہے۔ ویسے بھی بلوچستان میں ہی نہیں ملک بھر کے اکثر وزیر اعلیٰ ایسے کاموں میں ماہر تصور ہوتے ہیں، بس مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں یہ کام ذرا زیادہ ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کو تو چھوڑیں وہاں تو گورنر اور ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی کلرک اور چپڑاسی تو چھوڑیں اعلیٰ اعلیٰ عہدوں پر اپنے گھر والے یوں بھرتی کرتے ہیں جیسے یہ ان کا حق ہے۔
٭…٭…٭
2025ء تک پنجاب کی آبادی برطانیہ اور فرانس سے تجاوز کر جائے گی
اب تو شکوے بھی ختم ہو گئے آہیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔ اب کون سمجھائے اس ناسمجھ قوم کو کہ اگر یہ آبادی کا سیلاب یونہی بڑھتا رہا تو بے روز گاری اور بھوک وافلاس کے بم خود کش بمبار بن کر ہمارے اندر پھٹتے رہیں گے۔ قوم صرف بے کار افراد کے ہجوم کا نام نہیںباوقار قوم سلجھے ہوئے پڑھے لکھے کام کرنے والے تندرست دل و دماغ والے گروہ سے وجود میں آتی ہے۔ مگر ہمارے عوام کے دماغ میں نجانے یہ سوچ کس نے بھر دی ہے کہ جتنی زیادہ آبادی ہو گی ، اتنی زیادہ قوم بڑی ہو گی اب پنجاب کو ہی دیکھ لیں جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر اس کے باوجود یہاں آبادی پر کنٹرول پانے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے اور2025ء تک یہ آبادی 125ملین تک پہنچ جائے گی جو فرانس اور برطانیہ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے، تو پھر ذرا سوچئے آبادی کا یہ سیلاب آنے کے بعد پنجاب کی حالت کیا ہو گی۔
اب تو کوئی امرتا پریتم بھی نہیں جو اپنے وارث شاہ کو پکارے اور اسے پنجاب کی حالت دکھائے۔ اس وقت اس آبادی کو رہائش اور خوراک فراہم کرنے پر ہی سارا خزانہ خالی ہو جائے گا تو کچھ کرنے کے لئے ترقیاتی کاموں کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا، گھروں اور کھیتوں کے لئے زمین بھی نہیں بچے گی تو یہ انسان کیا کریں گے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر رہیں گے، کھائیں گے کیا‘ پہنیں گے کیا؟
ایک ارب20کروڑ کی کرپشن میں ملوث سابق خاتون ڈپٹی سیکرٹری متروکہ بورڈ گرفتار
پنجاب کی یہ خاتون ڈپٹی سیکرٹری تو لگتا ہے بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کے جوڑ کی ہیں۔ ورنہ عام طور پر خواتین ایسے معاملہ سے خود دور رہتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن کرنے والے اپنی بیگمات کی خواہش پورا کرنے کے لئے کرپشن کرنے کا رونا روتے ہیں۔ اب محکمہ متروکہ املاک کو اس خاتون ڈپٹی سیکرٹری نے مال مفت سمجھ لیا ہو گا، ویسے بھی جب انسان کرسی پر بیٹھتا ہے تو اسکی اوپر والی منزل یعنی دماغ میں سب کچھ سمیٹنے کی حرص کہہ لیں یا لالچ پیدا ہوتی ہے۔ سو اب اس میں مرد یا عورت کی کوئی قید نہیں اور ان کی تفریق ختم ہو چکی ہے۔
اب ہماری ممدوح اس ڈپٹی سیکرٹری نے سینکڑوں نا جائز الاٹمنٹ لیٹرز پر اپنے دستخط ثبت کر کے خزانے کو سوا ارب روپے کا نقصان پہنچایا ان کے باقی ساتھی پہلے ہی حراست میں ہیں۔ غالباً ان کی نشاندہی پر اس خاتون کی بھی شناخت عمل میں آئی ہے۔ بلوچستان میں ایک سیکرٹری کے گھر سے جو خزانہ نقدی کی شکل میں برآمد ہوا اس کو گننے کے لئے نوٹ گننے والی مشین منگوائی گئی تھی، شکرہے ان کے جاری کردہ الاٹمنٹ لیٹروں کو گننے کے لئے مشین نہیں منگوانی پڑی کیونکہ انہوں نے صرف451عدد نا جائز الاٹمنٹ لیٹرز پر سائن کئے تھے جسکی وجہ سے انکی کرپشن کا گراف ایک ارب20کروڑ کے ہندسے کو چھو گیا۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کے پاس حوصلہ ہو ورنہ وہ کہتے ناں
خطا بھی کام ہے جسارت کا
بزدلوں سے خطا نہیں ہوتی
بھارتی ریاست گجرات میں ہزاروں سال قدیم ڈائنوسار کا انڈہ ملنے کا دعویٰ
خدا خیر کرے کہیں تحقیقات کے بعد بھارتی انٹیلی جنس والے اسے ابھی پاکستان کی طرف پھینکا ہوا خوفناک ہلاکت خیز بم نہ ثابت کر دیں۔ ویسے بھی بھارت والوں کو دو چیزوں کا ہی شوق ہے ایک خود کو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا مرکز ثابت کرنا اور دوسرا پاکستان کو مطعون کرنا اب ظاہر ہے ڈائنوسار بھی دنیا سے کروڑوں سال پہلے نہ سہی لاکھوں سال پہلے فنا ہوئے ہیں۔
اب یہ انڈہ بھی ہزاروں سال پرانا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ بھارت میں ڈائنوسار رہتے تھے۔ بھارت والے اب ان کے معدوم ہونے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرا سکتے تھے کہ وہ ان سب بے ضرر دیو ہیکل جانوروں کو ذبح کر کے ان کا گوشت کھا گئے مگر اس وقت مسلمان موجود نہیں تھے اسلئے یہ الزام ان پر لگایا نہیں جا سکتا۔ ہاں البتہ اب یہ انڈہ کہیں پاکستان کے کھاتے میں بم کی شکل میں پڑ جائے جس کے بعد دنیا بھر میں بھارت پاکستان کیخلاف واویلا کرتا پھرے گا ۔کیونکہ یہ اسکی عادت ہے۔
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا
یوں پاکستانی بم کا ڈرامہ بنا کر بھارت ایک نئی سیریل چلائے گا، کوئی جانے نہ جانے بھارت کو اس سے غرض نہیں بس شور مچا نا اسکی فطرت ہے سو وہ اس پر عمل کریگا۔
٭…٭…٭