جمعرات ‘ 25 ؍ شوال المکرم 1438ھ‘ 20 جولائی 2017
پنجاب کے وزیر مال عطا مانیکا مستعفی ہو گئے۔
ق لیگ میں فاروڈ بلاک بنانے کے عمل سے لے کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت تک کے سفر کے بعد میاں عطا مانیکا کو مسلم لیگ (ن) سے ٹکٹ ملا اب یہ انکی سیاسی ساکھ کا ثمر تھا یا ق لیگ میں فاروڈ بلاک بنانے کا۔ یہ انہیں یا ان کو ٹکٹ دینے والوں کو ہی معلوم ہو گا۔ ویسے بھی ایک بات ہمیشہ یاد رکھی جانی چاہئے کہ وقت پر کسی کو چھوڑنے والے کسی بھی مرحلہ پر ہمیں بھی داغ مفارقت دے سکتے ہیں۔ اب تک مانیکا جی کی ناز برداریاں اٹھانے میں حکومت پنجاب نے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ دو مرتبہ انکے کہنے پر ان کی وزارت تبدیل کی حالانکہ پنجاب اسمبلی میں سینکڑوں مسلم لیگی ارکان اسمبلی ایک ہی بار وزیر نہ سہی مشیر بننے کے لئیے بھی ترسے ہوئے ہیں۔ یہاں مانیکا جی دو مرتبہ وزارت بدلنے کے باوجود بھی خوش نہیں ہوئے تو انہیں کون خوش رکھ سکتا ہے۔ رہی بات ان کو دیوار سے لگانے کی تو اگر یہ شکوہ بجا ہوتا تو آج ساری کابینہ مستعفی ہوتی نظر آتی۔ وزیراعلیٰ سے ملاقات کا وقت 4 سال میں دو مرتبہ ملنا بھی عجب بہانا ہے۔ کئی وزرا تو اس سے بھی محروم ہیں جبکہ ایم پی اے تو سرے سے تہی دست ہیں۔ اندر خانے کہیں وہ مسلم لیگ کی حکومت کو ٹائی ٹینک بنتا دیکھ کر تو چھلانگ مارنے کی تیاری تو نہیں کر رہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ روش اب بدلنا ہی بہتر ہے۔ دوست وہ ہوتا ہے جو دوست کو مشکل میں دیکھ کر کہے کہ میں اس کا دوست ہوں اور خوشحالی میں دوست کو دیکھ کر کہے کہ وہ میرا دوست ہے مگر یہاں تو
’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘
مرحلہ درپیش ہے۔ دیکھتے ہیں آگے آگے کیا ہوتا ہے۔ کہیں مانیکا جی بارش کا پہلا قطرہ نہ ثابت ہوں۔ فی الحال تو وزیراعلیٰ نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔ گویا وہ طوفان کو روکے ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کب تک وہ اس میں کامیاب رہتے ہیں۔
٭…٭…٭
گوجرانوالہ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے مریض کو مردے کے ساتھ لٹا دیا
کیا مسیحائی اس کو کہتے ہیں۔ کیا اس طرح ہمارے یہ ہسپتال والے کوئی معجزہ دکھانا چاہتے ہیں۔ مردے کو زندہ کرنا چاہتے ہوں گے جبھی تو یہ کام کر دکھایا۔ مگر اس معجزہ کے انتظار میں جتنا وقت وہ زندہ مریض مردے کے ساتھ بیڈ پر پڑا رہا وہ جانگسل مرحلہ خدا کسی کو نہ دکھائے۔ مریض کا سارا مرض تو اسی خوف سے دور ہو گیا کہ اس کے پہلو میں جو لیٹا ہے وہ کچھ دیر قبل تک ہنستا کھیلتا بولتا انسان تھا۔ مگر اب بے جان نعش بن چکا ہے۔ اس خوف کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہوں نے کچھ دیر تنہا کسی بے جان نعش کے ساتھ گزارہ ہو۔ یہ تو …؎
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے
حالت سے بھی سخت دشوار مرحلہ تھا۔ یہ انوکھا کارنامہ شاید ہی دنیا میں کہیں اور کسی اور ہسپتال میں انجام دیا جا سکتا ہے۔ جو گوجرانوالہ کے ہسپتال میں انجام دیا گیا۔ خوف خدا بھی ہمارے مسیحاؤں کو لگتا ہے چھو کر نہیں گزرتا کس طرح انہوں نے ایک زندہ مریض کو مردے کے پہلو میں ایک ہی بیڈ پر لٹا دیا وہ بھی علاج کے لئے۔ کیا عجب منظر ہو گا ہسپتال میں کہ زندہ مریض کے رشتہ دار الگ چیخ و پکار کر رہے ہوں گے۔ مرحوم کے لواحقین علیحدہ آہ و بکا میں مصروف تھے۔ مگر ڈاکٹروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اگر خوف سے معمر مریض کو کچھ ہو جاتا تو اسکا ذمہ دار کون ہوتا…
٭…٭…٭
2011ء ورلڈ کپ کا فائنل فکس تھا: رانا ٹنگا
سری لنکا کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور کمال کے کھلاڑی رانا ٹنگا کے اس بیان کے بعد تو پوری بھارتی ٹیم اور اس کی منیجمنٹ کو ٹنگ دینا چاہئے۔ جس نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ پورا فائنل فکس کر کے یہ ورلڈ کپ جیت کر اپنے نام کر لیا۔ مگر جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یہ کہیں نہ کہیں پکڑا ہی جاتا ہے۔ اب 6 سال رانا ٹنگا نے بڑی مشکل سے یہ جھوٹی ناکامیابی برداشت کی یہ مسلط کردہ شرمندگی کو چھپائے رکھا۔ مگر بالآخر سچ اگل ہی دیا۔ اب یہ سچ بھارت والوں سے کہاں برداشت ہو گا۔ وہ تو لٹھ لے کر کف اڑاتے ہوئے۔ میڈیا پر چیختے چنگاڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اب سنہری موقع ہے ہمارا میڈیا بھی ذرا بھارتی بے ایمانی کا پردہ چاک کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان کا اگر کوئی معمولی سا کھلاڑی بھی ایسی کسی حرکت میں ملوث نکلے تو پورا بھارتی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ خود کو گنگا نہایا ثابت کر کے پاکستان کے خلاف برستا ہے۔ اب پاکستان بھی عالمی سطح پر یہ مسئلہ اٹھائے اور بدلہ لے۔ ہمارا مسئلہ تو چند کھلاڑیوں تک محدود تھا یہاں بھارت کی تو پوری ٹیم اور منیجمنٹ نے میچ بک کرائے فکس کرا کے یہ جھوٹی کامیابی اپنے نام کرائی ہے۔ عالمی کرکٹ بورڈ کے ارکان بھی اب حقائق کو سامنے لائیں اور بھارتی کرکٹ ٹیم کی جھوٹی کامیابی کا پول کھولیں۔ تاکہ سب کو پتہ چلے کہ بھارت کے سٹے باز اور بکی کرکٹ ٹیموں کو خریدنے اور بک کرنے کے ملزم ہیں۔ بھارت کے لئے ان الزامات کے بعد 2011ء کے ورلڈ کپ کرکٹ چیمپیئن ہونے کا اعزاز اب ایک الزام بن گیا ہے…
٭…٭…٭
راولپنڈی میں وزیراعظم نوازشریف کے حق میں بینرز آویزاں
یہ عجیب قوم ہے جب چاہے جس کے چاہے حق میں نعرے بازی کرتی ہے یا بینرز لگا دیتی ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں یہی سڑکیں جو اس وقت قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کے بینروں سے سجی ہیں اس سے قبل قدم بڑھائو پرویز مشرف ہم تمہارے ہیں کبھی ایک زرداری سب پہ بھاری اور پھر راحیل شریف ابھی جانے کی ضد نہ کرو جیسے بینرز دیکھ چکی ہیں۔ مگر کیا یہ سچ نہیں کہ یہ بینرز گروپ عین اس وقت غائب ہو جاتا ہے جب میدان میں آنے کی باری آتی ہے۔ یعنی جب قدم بڑھانے کا وقت آتا ہے تو پیچھے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب غائب ہو چکے ہوتے ہیں۔ جو بینروں میں آگے بڑھنے کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں وہی سب سے پہلے الٹے پاؤں بھاگتے نظر آتے ہیں۔ یہ بینر گروپ پورے ملک میں موجود ہے۔ ان کا کام بس یہی ہے۔ ہلہ شیری دینا اور پھر پیچھے سے غائب ہو جانا۔ یہ کبھی حکمرانوں کے لئے چیختے ہیں اور کبھی اپوزیشن والوںکو برسر میدان، برسرپیکار رہنے کا درس دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گروپ کا کرتا دھرتا کوئی نظر نہیں آتا ہاں البتہ منجانب عوام لکھ کر یہ خود کو عوام تسلیم کراتے نظر آتے ہیں۔ عوام کیا چاہتے ہیں۔ اس کا شاید خود عوام کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔ وہ تو بس ان بینروں کی لگی بہار کو دیکھ کر کوئی لگی بندھی رائے باندھ لیتے ہیں اس وقت تو ’’نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے بینرز دیکھ کر دل خوش کررہے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
٭…٭…٭